LIVE

ہائبرڈ وار فیئر- خاموش جنگ چھیڑنے کا نیا ہتھیار

طارق معین صدیقی
January 30, 2019
 

ہائبرڈ وار فئیر ایک ایسی جنگ جو بڑی اور چھوٹی قوتیں اپنے مفادات کے لئے مخالف ریاستوں میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے شاطرانہ چالوں اور جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے لڑتی ہیں، کم لاگت کی اس جنگ میں بغیر انسانی جانوں کے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ماضی میں اس جنگ کا دائرہ مختصر ہوا کرتا تھا اور ہدف بھی محدود مفادات کے حصول تک تھا لیکن بدلتے وقت کے ساتھ اور جدید ٹیکنالوجی کی موجودگی میں اس کا دائرہ وسیع تر ہوگیا ہے، آج کی دنیا میں اپنے مقررہ ہدف کو نئی حکمت عملی سے تباہ کرنا اہم ترین موضوع بنا ہوا ہے۔

بین الاقوامی تعلقات کا طالب علم ہونے کی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ سازشی نظریوں کو عملی سازش بنا کر اُس ریاست کے لوگ، اداروں اور اثاثوں کو کمزور کر کے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ مذہبی، لسانی، علاقائی اور سماجی اختلافات کو ہوا دے کر پرتشدد اور گوریلا کارروائیوں کو دہشت گردی تک لے جانے کا نام "ہائبرڈ وار فئیر" ہے۔

اس مقصد کے لئے روایتی میڈیا سے بڑھ کر سوشل میڈیا کو ہائبرڈ جنگ کا اہم ترین آلہ سمجھا جاتا ہے، مختلف سماجی ویب سائٹس، سوشل میڈیا گروپس اور مختلف اپلیکیشنز کے ذریعے ان نازک معاملات کو چھیڑا جاتا ہے جس سے اُن ممالک کے عوام میں انتشار، بے چینی ، بے یقینی اور افراتفری پھیلائی جاسکے۔

ففتھ جنریشن وار اور ہائبرڈ وار پر ماہرین کے تحریر شدہ مواد سے پتہ چلتا ہے کہ اس مقصد کے لئے مختلف اقسام کے میڈیا کو ہتھیار بنا کر خفیہ فنڈنگ کی جاتی ہے، روایتی اور نئے میڈیا کے اہم اینکرز اور میزبانوں کو بھی خریدا جاتا ہے جس کے مختلف طریقے ہوتے ہیں اور یہ ہتھیار سب سے زیادہ کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ 

اس جنگ میں حریف ریاست کے اطراف اپنے اتحادیوں سے ملکی سرحدوں پر بھی دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی استعمال کی جاتی ہے، اس عمل میں معاشی اور اقتصادی صورت حال بھی بتدریج متاثر ہوتی جاتی ہے۔

یہ بھی کم لاگت جدید جنگ کا حصہ ہے کہ اپنے دشمن کی طاقت ختم کرنے کے لئے اسے داخلی طور پر کمزور کیا جائے، منفی سفارت کاری، دہشتگردی، سیاسی انتشار، اداروں کو کمزور کر کے اور عوام کی فلاح کے لئے قائم اداروں میں کرپشن کو فروغ دے کر دشمن ملک کی معیشت کو متاثر کرنا اس قسم کی جنگ کا بنیادی ہتھیار ہے۔

ہائبرڈ وار فئیر میں پالیسی سازوں اور پالیسی ساز اداروں تک رسائی حاصل کر کے ان پر اثر انداز ہوا جاتا ہے اور اپنے ایجنڈے کے مطابق قانون سازی تک کرالی جاتی ہے، اُس ملک کی غیر سماجی تنظیموں کو بظاہر انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق اور کمزور اور مظلوم طبقے کو براہ راست یا موقع کی نزاکت سے درپردہ اپنے بین الاقوامی فلاحی اداروں کے ذریعے فنڈز فراہم کر کے اپنے ایجنڈوں پر کام کرایا جاتا ہے۔

حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے ارکان پر تحقیق کر کے ان میں کرپشن کو فروغ دیا جاتا ہے، ان کی ملک سے جذباتی محبت کو کمزور بنانے پر بھی کام کیا جاتا ہے، ممالک میں قوموں کی تاریخ اگر فتوحات، انصاف، جدوجہد اور مضبوط حکمرانی پر مبنی ہوتی ہیں تو اس میں تحریف کر کے ان کے نصاب اور کتابوں میں تبدیلی کی مہم چلائی جاتی ہے اور مخالف کو کمزور اور مظلوم ظاہر کر کے ان کے ہیروز کو ظالم اور بے ایمان بتایا جاتا ہے۔ 

سب سے زیادہ کام نوجوان طبقے پر کیا جاتا ہے، ینگ لیڈرز اور یوتھ کا نام لے کر تنظیمیں بنا کر انہیں اپنے ایجنڈے کے تحت بھاری رقوم فراہم کی جاتی ہیں، اس کے تحت ان نوجوانوں کو پرکشش تربیتی کورس، مشاہرے اور اپنے پس منظر کے ممالک میں بلایا جاتا ہے اور ذہن سازی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور 'فالو اپ' کے نام پر ان کو اس سلسلے سے منسلک رکھا جاتا ہے۔

یہی سسلسلہ اساتذہ، سیاسی کارکن و رہنماؤں ، سرکاری افسران اور مزدور تنظیموں کے ارکان کے ساتھ جاری رکھا جاتا ہے، ہدف بنائے جانے والے ملک میں حکومت مخالف عسکری تنظیموں کو بھی اپنے ایجنڈے کے تحت استعمال کرتے ہوئے ان کی حمایت کی جاتی ہے، چھوٹے چھوٹے مسائل کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے، اداروں اور حکومتوں کی کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھا کر سوشل میڈیا کو بہترین آلہ بنایا جاتا ہے۔

موبائل، ٹیب، انٹرنیٹ ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ کو اہم ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، یعنی دنیا کی بڑی طاقتیں اپنی جدید جنگیں کمیونیکیشن کے آلات پر لڑرہی ہیں

ہدف بنائی جانے والی ریاست میں لسانی، علاقائی، سیاسی اور سب سے اہم مذہبی اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے اور اس سے جنم لینے والی تحریکوں کو پرتشدد تحریک میں ڈھالا جاتا ہے تاکہ ان ملکوں کو معاشرتی ناانصافیوں کے شیڈول میں ڈال کر گرے لسٹ میں ڈال دیا جائے اور معاشی طور پر مزید کمزور کر کے اپنے مفادات سمیٹے جاسکیں۔

موبائل، ٹیب، انٹرنیٹ ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ کو ان معاملات کے لئے اہم ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، یعنی دنیا کی بڑی طاقتیں اپنی جدید جنگیں کمیونیکیشن کے آلات پر لڑرہی ہیں۔

ہائبرڈ وار فئیر کی اصطلاح کم لاگت کی جنگ میں حریف ممالک کے اپنے اثاثے ہی اُن سے ہتھیار کے طور پر استعمال کرالیے جاتے ہیں، جس کا انہیں احساس بھی نہیں ہوپاتا اور معاشرے میں بے چینی، خوف اور بے یقینی کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔

پاکستان میں گزشتہ بین الاقوامی دفاعی نمائش میں ہونے والی ایک کانفرنس میں مختلف ممالک کے دفاعی ماہرین نے اپنے مقالے پڑھے جس میں یہ بتایا گیا کہ اب جنگوں کے میدان اور ہتھیار تبدیل ہوگئے ہیں، توپوں اور بندوقوں کی جگہ اسمارٹ فونز اور لیب ٹاپ لے چکے ہیں، ہائبریڈ وار فیئر دراصل روایتی ہتھیار، غیر روایتی چالوں، دہشت گردی اور مجرمانہ ذہن کا مرکب ہے۔

مثالیں دی گئیں کہ عرب ملکوں میں قیادت اور حکومتوں کا بغیر جنگ خاتمہ 'ہائیبریڈ جنگ' کی ایک مثال ہے، مغربی ماہرین کے حوالے سے بتایا کہ کم از کم 29 ملکوں نے دفاع اور جارحیت کی خاطر انٹرنیٹ کے استعمال کے لیے ادارے اور سیل قائم کر رکھے ہیں، 2005 سے 2017 کے دوران 60 ملکوں نے ہیکنگ اور نگرانی کے آلات خریدے، اس کانفرنس میں ازبکستان نے سائبر اسپیس سے جنم لینے والے خطرات سے نمٹنے کیلئے نظام کی تشکیل کی تجویز بھی دی۔

کانفرنس کا نچوڑ یہ رہا کہ 'بیانیے  کی جنگ' دور حاضر میں جارحیت کی اہم ترین شکل ہے، عسکری طاقت سے زیادہ ابلاغ ، نظریات اور خیالات کے ہتھیار ریاستوں میں جنگ جیتنے کیلئے ضروری ہیں۔

اس تمام تحریر کے لیے کئے گئے مطالعے کی بنیاد پر میں سمجھتا ہوں اس خطرناک جنگ کے لئے شہریوں میں ہائبرڈ جنگ سے متعلق آگہی پھیلانی ضروری ہے تاکہ قومی سلامتی سے متعلق امور میں شہری ریاست کے لئے مددگار ثابت ہوں اور اس سے ملک کے اندرونی دفاع کو مضبوط کیا جاسکے۔