LIVE

پاکستان میں یہ کام مشکل ہے!

مظہر برلاس
October 11, 2019
 

وزیراعظم عمران خان— فیس بک فوٹو

وہ پاکستانی نہیں تھا مگر وہ اس خطے کے بارے میں بڑی معلومات رکھتا تھا۔ اسے جنوبی ایشیا کا پورا خطہ، ممالک، لوگ اور ملکوں کی معیشت یاد تھی۔ اسے یہ بھی یاد تھا کہ کس ملک کے کیا مسائل ہیں۔

اس سے خوب باتیں ہوئیں، اس نے خطے کے مختلف ممالک کا جائزہ پیش کیا، جب وہ تمام جائزے پیش کرچکا تو میں نے عرض کیا کہ کیا تم پاکستان کو غریب ملک سمجھتے ہو؟

وہ میرے اس سوال پر چونکا، پھر مسکرایا اور اسی ہلکی سی مسکراہٹ میں کہنے لگا ’’نہیں، پاکستان غریب ملک نہیں، مگر پاکستان کے دو مسائل ہیں، سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور دوسرا مسئلہ ٹیکس چوری ہے‘‘۔

جب وہ پاکستان کے غریب نہ ہونے کی گواہی دے کر پاکستان کے دو بڑے مسئلے بیان کرچکا تھا تو میں نے اسے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا، ٹھیک ہے آپ نے پاکستان کے دو بڑے مسئلے بیان کئے ہیں مگر میری نظر میں دو بڑے مسئلے اور بھی ہیں نمبر ایک پاکستان میں اچھی لیڈر شپ پیدا نہیں ہو سکی، اچھے لیڈروں کا نہ ہونا بھی ہمارے زوال کی نشانی ہے۔

دوسرا مسئلہ گڈگورننس کا ہے۔ بری حکمرانیوں کے باعث ہم بہتر منصوبہ بندی نہیں کر سکے مگر شاید ان چاروں مسئلوں کے پیچھے بدنیتی ہے، بدنیتی ہی بدعنوانی کو جنم دیتی ہے اور بدعنوانی ہی سے سارے مسائل جنم لیتے ہیں۔

وہ میری باتیں توجہ سے سن رہا تھا میں بھی خطے کے سب ممالک کا موازنہ کرتا جارہا تھا کہ اچانک میرے منہ سے نکلا کہ ابھی تک میں نے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بیان ہی نہیں کیا۔

میرا یہ جملہ سنتے ہی اس کے کان مزید سرخ ہوگئے، وہ حیرت زدہ تھا کہ آخر وہ کونسا مسئلہ ہے پھر کہنے لگا، بتائیں میں نے عرض کیا، پاکستان میں قانون کی بالادستی نہیں ہے، آپ اسے قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا بھی کہہ سکتے ہیں۔

پاکستان میں ایک ہی جرم کو چھ زاویوں سے دیکھا جاتا ہے، طاقتور چھوٹ جاتا ہے اور غریب پھنس جاتا ہے۔ پاکستان میں قاتل چھوٹ بھی جاتا ہے، قاتل پھانسی بھی پاتا ہے، عمر قید کی سزا بھی سنتا ہے اور بالکل ہی بےگناہ قرار بھی دیا جاتا ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جس سے مافیاز کا راج جنم لیتا ہے۔

وہ میری باتیں سنتا رہا اور پھر بہت سوچ سمجھ کر بولا ’’مگر پاکستان کے موجودہ وزیراعظم تو کرپشن کے خلاف بڑی تقریریں کرتے ہیں، ان کی تقریریں دنیا کے اکثر ممالک میں بڑی توجہ سے سنی جاتی ہیں۔

حال ہی میں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے جو خطاب کیا اس میں انہوں نے ترقی یافتہ ملکوں کو بھی خوب دھویا کہ غریب ملکوں سے لوٹ مار کا پیسہ جب منی لانڈرنگ ہو کے امیر ملکوں میں پہنچتا ہے تو امیر ملک کیوں ایسے پیسے کو تحفظ دیتے ہیں۔

دراصل انہوں نے پاکستان ہی کا نہیں بلکہ تمام ترقی پذیر ملکوں کا مقدمہ پیش کیا ہے، اس تقریر سے کئی ملکوں کے عوام خوش ہوئے ہیں‘‘۔

جب وہ اپنی بات مکمل کرچکا تو میں نے اس سے کہا کہ ابھی رات ہی مجھے قومی اسمبلی کی سابق رکن گل فرخندہ نے بتایا کہ ’’اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر کو بہت سراہا گیا، افریقی، کریبین اور امریکن لوگوں نے پسند کیا۔

میری تین دوستوں سنتھیا، سارہ اور کرسیٹن نے کہا کہ تمہارے وزیراعظم نے بڑے واضح طریقے سے بتایا ہے کہ لوگ غربت کا شکار کیوں ہوتے ہیں،ہمارے امریکہ آنے کی وجہ بھی ہمارے ملکوں کی غربت اور ناانصافی ہے جبکہ امریکی معاشرے میں انصاف ہے۔

اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ گل فرخندہ کون ہیں، یہ خاتون 2002سے 2007تک قومی اسمبلی کی رکن تھیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی گل فرخندہ کو قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے پاپولیشن ویلفیئر کا چیئرپرسن بنایا گیا، اس نے اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کئے اور پھر جاتے وقت ایک ایسا کام کیا کہ عام اسٹاف کے لوگ ہنسنا شروع ہوگئے۔

میری باتیں توجہ سے سننے والا کہنے لگا وہ کیوں؟ میں نے عرض کیا، لوگ اس لئے ہنس رہے تھے کہ گل فرخندہ وہ کام کررہی تھی جس کا پاکستان میں رواج ہی نہیں، صرف قائدکے دور میں اس کی مثالیں ملتی ہیں مثلاً گل فرخندہ نے قومی اسمبلی کی رکن کے طور پر استعمال کی دس چیزوں کے نام لکھے اور وہ چیزیں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو واپس کیں۔

اسی طرح ایک فہرست چیئرپرسن پاپولیشن ویلفیئر کے آفس کی بنائی اور تمام چیزیں جمع کروائیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ ان چیزوں میں صوفہ سیٹ سے لے کر وال کلاک تک شامل تھا، واپس کی جانے والی چیزوں میں پین، مارکر، سٹیپلر اور فیکس رول بھی تھے،

اس نے ایک ایک گلاس اور ایک ایک کپ واپس کیا اور بس اتنا کہا کہ ’’یہ چیزیں عوام کے ٹیکس سے آتی ہیں، ہمارے پاس امانت ہوتی ہیں، ہمیں یہ امانت لوٹا دینی چاہئے‘‘ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان میں تمام اراکین اسمبلی ایسے ہیں، یہاں تو وہ لوگ بھی اربوں پتی بن گئے جو معمولی بیک گراؤنڈ رکھتے تھے

عام اراکین اسمبلی نے بھی اتنی لوٹ مار کی کہ خزانہ خالی کرکے رکھ دیا۔ میں بڑی بدقسمتی سے یہ بتارہا ہوں کہ میرے ملک کو بےدردی سے لوٹا گیا، میری دھرتی کو نوچا گیا، آج اس دھرتی پر پیدا ہونے والا بچہ ڈیڑھ دو لاکھ کا کیوں مقروض ہے، کیا اس بچے نے قرضہ لیا، کیا اس کے والدین نے قرضہ لیا،

نہیں جناب والا! اس ملک پر حکومت کرنے والوں نے یہ قرضے لئے، اسی لئے تو عمران خان بیجنگ میں کھڑا ہو کے بھی تڑپتا ہے ’’کاش میں پانچ سو کرپٹ افراد جیل بھیج سکتا، ہمارا نظام مشکل ہے، کرپشن کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں ہوتی، چینی صدر نے وزارتی سطح کے چار سو افراد کو سزا دلوائی مگر پاکستان میں یہ کام مشکل ہے‘‘۔

کاش، مگر کاش! پاکستان میں یہ کام ہو جاتا، کاش تمام ڈاکوؤں سے وصولیاں ہو جاتیں، کاش! تمام چوروں کے ہاتھ کاٹ دئیے جاتے، کاش! انصاف ہوتا، کاش! لٹیرے موت کے پھندے میں ہوتے مگر یہاں تو بقول ناصر بشیر؎

وہی ہے رات، وہی رُت، وہی اداسی ہے

خوشی ہے دور کہیں، زندگی خفا سی ہے