LIVE

قتل کیس میں گرفتار ہونیوالے شاہد حیات کے عروج و زوال کی کہانی

افضل ندیم ڈوگر
October 16, 2019
 

Your browser doesnt support HTML5 video.


کراچی میں طویل علالت کے بعد انتقال کر جانے والے  سابق ایڈیشنل آئی جی پولیس شاہد حیات خان لگ بھگ ڈھائی دہائی سے زائد عرصے کی سرکاری ملازمت کے دوران دو مرتبہ موت کے منہ سے بچ نکلے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

شاہد حیات خان گزشتہ کئی ماہ سے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) میں تعینات تھے، وہ موٹروے میں ایڈیشنل آئی جی کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے، اس سے پہلے وہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں ڈائریکٹر سندھ تعینات تھے۔

پولو کے بہترین کھلاڑی شاہد حیات نے کراچی میں سیاسی کشمکش اور جرائم پیشہ گروہوں کے گراؤنڈ پر بطور ایڈیشنل آئی جی کراچی بہترین کھیل پیش کیا۔

شاہد حیات نے اپنی سرکاری ملازمت کا آغاز سول سروس کا امتحان پاس کرکے 1988ء میں خیبر پختونخوا میں سول جج کی حیثیت سے کیا تھا۔

شاہد حیات نے سرکاری ملازمت کا آغاز سول جج کی حیثیت سے کیا

شاہد حیات خان نے سال 1989 میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور 1991 میں باقاعدہ طور پر سول سروس جوائن کی، 1992ء میں اے ایس پی کی حیثیت سے لاہور میں پولیس سروس کی پہلی تعیناتی حاصل کی، 1993 میں اقوام متحدہ کے مشن پر منتخب ہوکر بیرون ملک چلے گئے۔

بیرون ملک سے واپسی پر 1995 میں جب کراچی میں لاقانونیت اور پولیس آپریشن عروج پر تھا، اُنہیں کراچی کے ان دنوں انتہائی خطرناک علاقے پاک کالونی میں سب ڈویژنل پولیس آفیسر کی حیثیت سے تعینات کیا گیا۔

 اس دوران دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے دوران اُن پر حملہ کیا گیا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے۔ گولی اُن کے چہرے پر لگی اور ایک ماہ تک اسپتال میں علاج کے بعد واپس اُسی علاقے میں اپنے فرائض منصبی انجام دیے۔

شاہد حیات کے ساتھ کام کرنے والے پولیس افسران اُنہیں اس بناء پر بھی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ وہ ہر ساتھی کے دُکھ درد میں برابر کے شریک دیکھے جاتے تھے— فوٹو: فائل
شاہد حیات کو مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں گرفتار کیا گیا

1996 میں سابق وزیراعظم کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کی موت کا سبب بننے والے پولیس ایکشن کے دوران اُنہیں پھر گولی لگی، تاہم اسپتال میں کافی عرصہ زیر علاج رہنے کے بعد اُنہیں میر مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں دیگر پولیس افسران کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور صحت یاب ہونے کے بعد اُنہیں جیل بھیج دیا گیا۔

لگ بھگ پونے تین سال جیل کاٹنے کے بعد اُنہیں دوبارہ کراچی میں ڈویژنل پولیس افسر صدر تعینات کیا گیا، جس کے بعد اُنہیں ایس پی ٹھٹھہ مقرر کیا گیا۔ 

ٹھٹھہ میں تعیناتی کے دوران اُنہوں نے اپنے مخصوص طرز کی پیشہ ورانہ خدمات کے دوران الیکشن مہم میں ایک سیاسی جماعت کے کہنے پر مخالف جماعت کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کیا تو اس پاداش میں اُن کا پھر تبادلہ کردیا گیا، جس کے بعد وہ کراچی میں ایس ایس پی انویسٹی گیشن ایسٹ، اے آئی جی اسٹیبلشمنٹ بھی تعینات رہے۔

شاہد حیات نے موٹروے میں بھی  ایڈیشنل آئی جی کے طور پر خدمات سرانجام دیں— فوٹو: فائل
شاہ زیب قتل کیس کی تفتیش کو کامیابی سے انجام تک پہنچایا

ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے شاہد حیات نے ایف آئی اے میں بھی ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔ وہ ڈی آئی جی شرقی اور ساؤتھ بھی رہے۔ 

ڈی آئی جی ساؤتھ کی حیثیت سے تعیناتی کے دوران اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے ٹاسک ملنے پر  شاہ زیب قتل کیس کے سربراہ تفتیشی افسر بھی رہے۔ اُن کی قیادت میں تفتیشی ٹیم نے اس کیس کو کامیاب انداز میں انجام تک پہنچایا، شاہد حیات، عباس ٹاؤن کے خوفناک بم دھماکے کی تحقیقاتی ٹیم کے بھی سربراہ رہے۔

شاہد حیات کے ساتھ کام کرنے والے پولیس افسران اُنہیں اس بناء پر بھی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ وہ ہر ساتھی کے دُکھ درد میں برابر کے شریک دیکھے جاتے تھے، وہ افسران اور اہلکاروں کا مورال بلند کرنے میں مہارت رکھتے تھے، اہلکاروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا، اُن کے معمولات میں شامل تھا۔

شاہد حیات تاحیات پولیس کی جانب سے ملنے والے دو بیڈ روم کے فلیٹ میں مقیم رہے اور کراچی پولیس کے سربراہ بننے کے باوجود وہ اُسی گھر میں رہائش پذیر رہے۔مرحوم نے دو صاحبزادیوں اور بیوہ کو سوگوار چھوڑا ہے۔