LIVE

کشمیر یا افغانستان ہماری پہلی ترجیح ؟ وزیراعظم ایوان میں جواب دیں، اپوزیشن

ویب ڈیسک
January 24, 2020
 

Your browser doesnt support HTML5 video.

سینیٹ اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان اور  نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاصل بزنجو نے ملکی خارجہ پالیسی کے حوالے سوال اٹھادیے۔

سینیٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پی پی سینیٹر شیری رحمان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے پہلی ترجیح کشمیر کی بجائے افغانستان کو کہا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے اس بیان پر کشمیریوں کے دل پر کیا گزر رہی ہے، کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اتنی بڑی تبدیلی آئی ہے؟ حکومت نے کشمیر پر بھی یوٹرن لے لیا ہے، کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا کیا بنا؟

شیری رحمان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اتنی بڑی پالیسی تبدیلی کا بیان دیا لیکن میں امید رکھتی ہوں کہ وزیر اعظم کی زبان پھسل گئی تھی، پارلیمنٹ کا حق ہےکہ جانے خارجہ پالیسی میں کمشیرپر اتنی بڑی پالیسی تبدیلی آئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کوئی چھوٹی بات نہیں، کشمیر پرپہلے صدر ٹرمپ نے ثالثی کی بات کی تھی، اِس ثالثی کی پیشکش کے بعد ’عالمی سرکار‘ نے مودی کو کشمیر کا درجہ بدلنے کی اجازت دی۔

انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں اس نئی تبدیلی پر وزیر خارجہ نہیں بلکہ وزیر اعظم بیان دیں اور ایوان کو آکر بتائیں کہ کشمیر سے متعلق پالیسی میں کیا تبدیلی آئی ہے۔

یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے موقع پر 21 جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ 

’سی پیک کے حوالے سے امریکا اور پاکستانی وزراء کا موقف ایک دکھائی دیتا ہے‘

میر حاصل بزنجو — فوٹو: سینیٹ آفیشل

اجلاس میں سینیٹر حاصل بزنجو نے کا کہنا تھا کہ ہم ہر جگہ کہتے تھے چین سے دوستی ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی ہے لیکن موجودہ حکومت کے آنے کے بعد ہم نے ایک نیا شفٹ لیا۔ 

انہوں نے کہا کہ وزیر مواصلات نے کہا کہ ملتان سکھر موٹر وے سے پیسے کھائے گئے، عبدالرزاق داؤد نے کہا کہ چین سے معاہدے کا از سر نو جائزہ لیں، اس سے نقصان ہوا، اب سعودی عرب سے شفٹ کرتے ہوئے امریکا پہنچ گئے، وزیر اعظم جب امریکا سے آئے تو پی ٹی آئی نے ائیر پورٹ پر جشن منایا اور کہا کہ ٹرمپ پاکستان کاحمایتی اور بھارت مخالف ہو گیا ہے۔

حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ امریکی قائم مقام نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیائی امور بیورو ایلس ویلز پاکستان میں بیان دیتی ہیں کہ سی پیک پاکستان دشمن پروگرام ہے، وزیر خارجہ بتائیں کہ چین اور امریکا کے بیانات پر ہمارا کیا رد عمل ہے، پہلے ہمارے وزراء کا مؤقف تھا، وہی اب امریکا کا بھی مؤقف ہے۔

ان کا کہنا ہےکہ کیا ہم واقعی سی پیک کو رول بیک کر رہے ہیں؟ امریکا کو جواب بھی چینی سفیر نے دیا، ایسا لگا کہ ہمارا کوئی وجود ہی نہیں۔

 خیال رہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان کے دورے پر آئی امریکی نائب معاون وزیرخارجہ ایلس ویلز نے دوبارہ سی پیک کے حوالے سے چین پر الزامات عائد کیے جس پر پاکستان میں موجود چینی سفیر نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا، پاک چین تعلقات پر الزام دھرنے سے پہلے ماضی دیکھے کہ انہوں نے پاکستان کے لیے کیا کیا؟ کیا ایلس ویلز پاکستان کے لیے امداد، سرمایہ کاری یا ٹریڈ لے کر آئی ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو پاکستان اور خطے کی ترقی اور خوشحالی کا صحیح خیال ہے تو کیش اور فنڈز لائے، باہمی احترام، منصفانہ اور شفاف بنیاد پر تعاون کرے نا کہ عالمی تھانے دار کا کردار ادا کرے، ایسے شخص کو کبھی نہیں جگا سکتے جو سوئے ہونے کا تاثر دے، امریکا ابھی تک سی پیک کے بارے میں حقائق کو نظرانداز کررہا ہے، سی پیک منصوبوں میں گزشتہ 5 سال میں اہم پیشرفت حاصل کی گئی ہے۔