LIVE

سندھ حکومت نے پی آئی اے طیارہ حادثے کی تحقیقاتی ٹیم پر اعتراض اٹھا دیا

کامران رضی
May 26, 2020
 

سندھ حکومت نے پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے) کے طیارہ حادثے کی تحقیقاتی ٹیم پراعتراض اٹھادیا۔

 کراچی کیمپ آفس میں صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے صوبائی وزیر اطلاعات ناصر شاہ اور امتیاز شیخ کے ہمراہ پریس کرتے ہوئے کہا کہ کبھی کہا جاتا ہے پائلٹ کی غلطی ہے تو کبھی کہا جاتا ہے پرندے ٹکرائے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں طیارہ حادثے کی تحقیقاتی ٹیم پر اعتراض ہے، تحقیقاتی ٹیم میں تمام لوگ چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کے ماتحت ہیں،  پی آئی اے کے سی ای او اور سول ایوی ایشن کے سربراہ کو عہدے سے ہٹایا جائے اِس کے بغیر شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ پہلے کسی نے نہیں بتایا کہ طیارہ رن وے پر آیا تھا لیکن  جب مسافر زبیر نے بتایا تب سب کو پتا چلا طیارہ رن وے پر آیا تھا، حادثے کی ذمہ داری ان پر ڈالی جارہی ہے جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔

سعید غنی نے مطالبہ کیا کہ اس تحقیقاتی کمیٹی کو ختم کر کے نئی ٹیم تشکیل دی جائے، تحقیقاتی ٹیم میں پالپا، عالمی پائلٹس کی تنظیم کے نمائندوں پر مشتمل غیر جانبدار تحقیقاتی ٹیم بنائی جائے اور پھر فیصلے کیے جائیں۔

ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کو ضرور تحقیقات میں شامل کریں جبکہ ماڈل کالونی کے ساتھ کینٹ کا علاقہ بھی ہے پھر اسے بھی تحقیقات میں شامل کریں، ائیرپورٹ کے اطراف تعمیرات کی اجازت سول ایوی ایشن دیتا ہے تو اسے بھی شامل کریں۔

ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج آنے پر نعشیں ورثا کےحوالے کی جائیں گی: ناصر حسین

اس موقع پر صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات ناصر شاہ نے طیارے حادثے سے متعلق امدادی کاموں کے حوالے سے کہا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کراچی لیب میں ہورہے ہیں اور ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج آنے پر نعشیں ورثا کےحوالے کی جائیں گی، اس حادثے کے بعد تمام اداروں نے مل کر کام کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹڈی دل پر وفاق نے صوبے کی کوئی مدد نہیںاور اس کے خاتمے کے لیے حکومت سنجیدہ نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل حملے وفاقی حکومت کی نااہلی ہے، وفاق نے ریگستانی علاقوں میں اسپرے کا وعدہ کیا تھا، سندھ حکومت نے اپنے طور پر ٹڈی دل کا مقابلہ کیا۔

یاد رہے کہ 22 مئی کو پی آئی اے کا لاہور سے کراچی آنے والا طیارہ رن وے سے چند سیکنڈ کے فاصلے پر آبادی پر گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے سمیت 97 افراد جاں بحق جب کہ دو افراد معجزانہ طور پر بچ گئے تھے۔

واقعے کے بعد وفاقی حکومت نے  ائیرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بورڈ (اے اے آئی بی) کے صدر ائیرکموڈور عثمان غنی کی سربراہی میں 4 رکنی تحقیقاتی ٹیم بنائی تھی جس نے جائے حادثہ کا دورہ کیا تھا۔

اس کے علاوہ طیارہ حادثے کی تحقیقات کے لیے ائیر بس بنانے والی کمپنی کے ٹیکنیکل ایڈوائزر کی 11 رکنی ٹیم آج صبح کراچی پہنچی تھی جس نے اپنے کام کا آغاز کردیا ہے اور ٹیم نے جائے حادثہ کا دورہ بھی کیا۔