LIVE

مذاکرات کیوں ہوں؟

ایس اے زاہد
April 30, 2024
 

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ملکی معیشت کی بہتری اور استحکام کیلئے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات نہایت ضروری ہیں۔پی ٹی آئی والوں کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کیساتھ مذاکرات نہیں کریں گے کیونکہ یہ حکومت ریموٹ کنٹرول سے چل رہی ہے اسلئے بے اختیار اور غیر آئینی حکومت سے مذاکرات کا ان کو کوئی فائدہ نہیں۔

 ایک طرف پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ نے اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کا بیان دیا دوسری طرف پی ٹی آئی کے ایک ’’رہنما‘‘ کے مطابق مذاکرات صرف اور صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس سے ہوں گے اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ مذاکرات جلد ہونگے جبکہ تیسری طرف اس جماعت نے ملک میں احتجاجی جلسے شروع کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔

 مذاکرات کے حوالے سے اور بعض دیگر گفتگو سے پی ٹی آئی یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ گویا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے ہیں اور بیک ڈور بات چیت چل رہی ہے۔ اسلئے پارٹی کے بعض ارکان واپسی کیلئے کوششیں شروع کرچکے ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ کہ ملکی معیشت کی بہتری کیلئے بانی پی ٹی آئی کی مذاکرات کے نتیجے میں رہائی جو اصل مقصد ہے کیوں ضروری ہے۔ کیا ان کے بغیر ملکی معیشت کا پہیہ جام ہوگیا ہے۔ یقیناً ایسا تو بالکل نہیں ہے بلکہ اب تو معیشت کا پہیہ تیزی سے چلنے لگا ہے اورنظر آرہا ہے کہ ملکی معیشت سرعت کیساتھ بہتری کی طرف گامزن ہے جس میں حکومت کے علاوہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا بھی کلیدی کردار ہے۔ اس لئے بانی پی ٹی آئی کی رہائی یا قید کو معیشت کے ساتھ جوڑنا بے معنی بات ہے۔

 البتہ ان کو کسی قسم کی ڈھیل دینے سے ایک بار پھر معیشت کی بہتری کی رفتار میں کمی کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ کوئی پوچھے کہ موجودہ حکومت کے ریموٹ کنٹرول ہونے سے کیا مراد ہے، یہ تو کھلے الفاظ میں اسی اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگانا ہے جس اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کیلئے وہ ہلکان ہورہے ہیں۔

 یہ بات واضح ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کا نہ سیاست سے کوئی تعلق یا دلچسپی ہے اور نہ ہی کوئی اور ذاتی ایجنڈا ہے اگر تعلق ہے تو جمہوری حکومت کے ساتھ مل کر ملک کی معاشی بہتری کیلئے کوششیں کرنا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا وطیرہ ہے کہ اس کی منشا کے خلاف ہرکام کووہ غلط کہتی اور الزام لگاتی ہے۔ 

اسی جماعت نے امریکہ پر اپنی حکومت گرانے اور دھمکی دینے کا الزام لگایا پھر اس کے لوگ امریکی سفیر اور عہدیداروں سے ملاقاتیں کرتے رہے اور اس الزام کودھونے کی کوششیں کرتے رہے ،جب بات نہ بنی تواس مقصد کیلئے لاکھوں ڈالرز پرلابنگ فرمز کوہائر کیاگیا لیکن حصول مراد میں ناکامی ہی رہی۔ پھر عدم اعتماد کی تحریک اور اسکی کامیابی کا الزام اسٹیبلشمنٹ پرلگایا۔ اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم چلائی یہاں تک کہ اس دوران سانحہ لسبیلہ کے شہدا کے خلاف غلیظ اور ناپاک مہم چلاکر ان کی حرمت کا بھی خیال نہ کیا۔ 

پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں جو الفاظ استعمال کئے گئے وہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ملک اورقوم کے محافظوں،اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں اور اس عظیم قربانی کیلئے ہمہ وقت تیار رہنے والوں کا احترام ہرپاکستانی مقدم سمجھتا ہے تو پھر یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے۔9مئی کے واقعات میں ملوث اور سہولت کاروں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا یہ ایک طے شدہ بات ہے۔ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات کی خواہش تو بہت دیرینہ ہے۔

 لیکن ذرائع نے ایسے کسی بھی امکان کو رد کیا ہے۔ جہاں تک بیک ڈور بات چیت کا تعلق ہے تو ذرائع نے اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ نہ تو کسی سے کسی بھی سطح پرکوئی بات چیت چل رہی ہے نہ ہی کسی بھی قسم کی ڈھیل یا ڈیل کا امکان ہے بلکہ ایسی سوچ ہی نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ کے پی کا اسلام آباد پر قبضہ کرنے کا بیان ہو، سعودی عرب پرحکومت گرانے میں شامل ہونے کا بیان یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جلد مذاکرات کا بیان ہو ، ان تمام الٹے سیدھے بیانات سے دوباتیں واضح ہوجاتی ہیں۔

 پہلی یہ کہ اس طرح کے بیانات بانی پی ٹی آئی کی مرضی اور خواہش کے خلاف نہیں دئیے جاسکتے۔ دوسری بات یہ کہ ان بیانات سے بدحواسی اور شدید ڈپریشن کا اظہار ہوتا ہے۔ یادرہے کہ بانی پی ٹی آئی نے گرفتاری سے پہلے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کے بغیر نہ ملک کی معیشت چل سکے گی نہ ملک چل سکے گا اور نہ فوج رہے گی یعنی کہ سب کچھ تباہ وبرباد ہوجائے گا لیکن وہ خوددیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ملکی معیشت تیزی سے بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے۔

ملک بہتر چل رہا ہے اور افواج پاکستان قائم ودائم ، مضبوط ترین اور قوم کے دلوں میں بس رہی ہیں اور یہی ڈپریشن کی بنیادی وجہ ہے۔ بدحواسی اس لئے کہ وہ جیل میں ہیں ابھی چند اہم اور زیر سماعت مقدمات کے فیصلے آنےہیں، پارٹی بھی کئی دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ تمام ترلوں،منتوں اور کوششوں کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ہلکا اشارہ تو دور کی بات امیدیں بھی ختم ہوچکی ہیں ۔ جہاں تک احتجاجی جلسوں یا تحریک کا تعلق ہے قیاس کیا جاتا ہے کہ دیگر کوششوں کی طرح اس طرح کی کسی بھی کوشش کا انجام بھی ناکامی پرہی منتج ہوگا۔ 

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں اور معیشت کی بہتری کی راہ میں روڑے اٹکانے کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا قطعی ناقابل برداشت ہے۔ یہ کوئی سیاست ہے نہ جمہوریت ہے نہ کوئی طریقہ ہے کہ بے شک ملک کی بہتری کے اقدامات ہوں لیکن کسی کی مرضی اور مفاد کے خلاف ہوں توان اقدامات کو تسلیم نہ کیا جائے یہ تو ملک میں انارکی پھیلا کر ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، اسلئے پی ٹی آئی کو ماضی میں ضرور جھانکنا چاہیے اور ملکی ترقی کیلئے مثبت کردار ادا کرنا چاہئے۔