ہزاروں سال قبل جزیرہ نما عرب میں رہنے والے افراد گرمی سے بچنے کے لیے زیرزمین چلے گئے تھے اور انہوں نے ایسی سرنگوں میں رہائش اختیار کیں جن میں لاکھوں سال قبل لاوا بہتا تھا۔
یہ انکشاف ایک تحقیق میں سامنے آیا۔
تحقیق کے مطابق پتھر کے عہد کے آغاز میں جزیرہ نما عرب میں رہنے والے چرواہوں نے بڑی سرنگوں پر قبضہ کیا۔
زیرزمین موجود ٹھنڈک نے ان افراد کو صحرا میں سورج کی تپش اور آندھیوں سے تحفظ فراہم کیا۔
درحقیقت ان افراد نے ان سرنگوں میں اپنے مویشیوں کے ساتھ پناہ لی اور وہاں سے نکتے وقت مختلف اشیا اور چٹانی دیواروں پر تصاویر بھی چھوڑ گئے۔
سعودی عرب کی Harrat Khaybar نامی لاوا فیلڈ میں سرنگوں کے نظام کو کئی برس قبل ماہرین آثار قدیمہ نے دریافت کیا تھا۔
سرنگوں کے اس نظام کو Umm Jirsan کا نام دیا گیا اور سائنسدان ابھی یہ تصدیق نہیں کرسکے کہ سرنگوں کا نظام کب بنا، مگر ایک پرانی تحقیق کے مطابق یہ سرنگیں 30 لاکھ سال پرانی ہو سکتی ہیں۔
اب جرنل PLOS One میں شائع نئی تحقیق کے مطابق ماہرین نے جانوروں کی ہڈیوں کو دریافت کیا جو 400 برسوں سے 4 ہزار سال پرانی تھیں۔
اسی طرح انسانی باقیات کو بھی دریافت کیا گیا جو ڈیڑھ سو برسوں سے 6 ہزار سال پرانی تھیں۔
تحقیق میں لکڑی کے ٹکڑے، پتھروں کے اوزار اور کپڑوں کے ریشے دریافت کیے گئے اور ان سے عندیہ ملا کہ انسانوں کی جانب سے ان سرنگوں کو کم از کم 7 ہزار سال قبل استعمال کیا گیا تھا۔
محققین نے بتایا کہ ہم کو اندازہ تھا کہ وہاں فوسلز محفوظ ہوں گے، مگر ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ ہم چٹانوں پر تصاویر کے ذریعے وہاں انسانی قبضے کے شواہد دریافت کر سکیں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ دریافت Umm Jirsan اور خطے کی دیگر سرنگوں کے حوالے سے بہت اہم ہے، کیونکہ زمانہ قدیم کے موسم اور اس عہد میں شمال مغربی عرب میں رہنے والے انسانوں کے بارے میں تفصیلات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
تحقیقی ٹیم کی جانب سے لگ بھگ 15 سال سے اس خطے میں کام کیا جا رہا ہے اور وہ جزیرہ نما عرب میں زمانہ قدیم کے انسانوں کے بارے میں شواہد اکٹھے کر رہی ہے۔