پاکستان
17 فروری ، 2017

خودکش حملہ آور عورتوں کے راستے سے درگاہ میں آیا

خودکش حملہ آور عورتوں کے راستے سے درگاہ میں آیا

سہون میں لعل شہباز قلندر کے مزار میں خودکش حملہ کرنے والا عورتوں کے راستے سے داخل ہوا، حملہ آور نے برقعہ پہنا ہوا تھا اور بال بھی لمبے رکھے ہوئے تھے۔

حملہ آور اور اس کے سہولت کار جانتے تھے کہ شام سات بجے درگاہ میں نہ بجلی ہوگی نہ تلاشی لینے کے لیے خاتون اہلکار ہوگی، خود کش حملہ آور نے دھماکا پوری تیاری اور ریکی کے بعد مزار کے اندر جا کر کیا۔

سہون ہو یا لاہور، پشاور یا پھر کراچی، دہشت گرد اپنے ہدف ہر شہر میں بلا روک ٹوک داخل ہوئے، ان شہروں میں دہشت گردوں کے سہولت کار موجود تھے جنھوں نے انھیں چھپنے کے لیے جگہ فراہم کی، انھیں ان کے اہداف سے متعلق معلومات دیں، انھیں خودکش جیکٹوں سے آراستہ کیا اور پھر انھیں ان کے اہداف تک پہنچایا۔

اس سب سے پہلے سہولت کاروں نے مخصوص اہداف کی ریکی بھی کی لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی مرحلے پر ان کا سراغ لگانے میں ناکام رہے، بعد میں گرفتاریاں بھی ہوئیں اور مقابلوں میں دہشت گردوں کو ہلاک بھی کیا گیا لیکن تب تک دہشت گرد اپنا وار کر چکے تھے۔

دہشت گردی کی حالیہ لہر کے دوران اور خاص طور پر سہون دہشت گرد حملے میں سیکورٹی انتظامات کی بڑے پیمانے پر ناکامی کھل کر سامنے آئی، حکومت سندھ کہتی ہے کہ درگاہ لعل شہباز قلندر میں ساٹھ سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں جبکہ چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف کے مطابق درگاہ میں بیالیس کیمرے ہیں، اگر سندھ حکومت کے ریکارڈ کے مطابق کیمرے ساٹھ تھے تو باقی اٹھارہ کیمرے کہاں گئے؟

محکمہ اوقاف کے مطابق درگاہ پر نصب بیالیس میں سے چار کیمرے خراب ہیں، درگاہ کی سیکورٹی کے لیے ضلع جام شورو پولیس کے چھیاسی اہل کار تعینات ہیں مگر عملی طور پر صرف سولہ اہل کار ہیں جو دو شفٹوں میں ڈیوٹی دیتے ہیں، اس کے علاوہ محکمہ اوقاف کے گیارہ ملازمین بھی سیکورٹی فرائض سرانجام دیتے ہیں۔

محکمہ اوقاف نے چھ لیڈی سرچر فراہم کی ہیں مگر عملی طور پر صرف ایک لیڈی سرچر گولڈن گیٹ پر موجود ہوتی ہے، مبینہ خودکش حملہ آور جس گیٹ سے درگاہ میں داخل ہوا وہاں لیڈی سرچر موجود نہیں تھی، اس کی خبر حکومت کو ہو نہ ہو، دہشت گردوں کو ضرور تھی۔

درگاہ میں داخلے کے لیے چھ الیکٹرانک واک تھرو گیٹ بھی نصب ہیں مگر وہ موثر طور پر کام نہیں کر رہے اور اگر وہ کام کر بھی رہے ہوتے تو حملہ آور اپنی نشان دہی کے باوجود دھماکا کرکے بھاری نقصان کا موجب بن سکتا تھا، سی سی ٹی وی کیمروں سے مانیٹرنگ کے لیے ایک چھوٹا سا کمرا ہے جہاں صرف ایک شخص مانیٹرنگ پر مامور ہے جو کانٹریکٹ پر ملازم ہے۔

بلوچستان میں درگاہ شاہ نورانی پر دھماکے کے بعد دیگر درگاہوں پر بھی حملے کا خدشہ تھا، مگر سہون میں اضافی سیکورٹی انتظامات نظر نہ آئے، سہون میں ایسا کوئی اسپتال بھی موجود نہیں تھا جہاں شدید زخمیوں کی جان بچانے کے اقدامات کیے جاتے، ایسے زخمیوں کو نواب شاہ، حیدرآباد اور کراچی لے جانا پڑا۔

ملک بھر سے عقیدت مند سہون آتے ہیں مگر مزار میں آنے جانے اور بیٹھنے کی جگہ انتہائی تنگ ہے، ایسی تنگ جگہ میں رش کے اوقات میں کوئی بھی سانحہ پیش آ سکتا تھا، بدقسمتی سے ایسا ہوا اور سیکورٹی ادارے اور سندھ حکومت کچھ نہ کر سکی، اتنے شہیدوں کی قربانی کے بعد ہی سہی، کاش یہاں مزار کے اردگرد جگہ کشادہ کر دی جائے، کاش یہاں ایک اچھا اسپتال ہی بنا دیا جائے، یہاں سے منتخب ہونے والے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کیا اس بارے میں کچھ کر سکیں گے؟

 

مزید خبریں :