بلاگ
06 مارچ ، 2017

وزیر اعلیٰ سندھ کی تعلیمی ایمرجنسی

وزیر اعلیٰ سندھ کی تعلیمی ایمرجنسی

...رانا جاوید...
آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لیے ضروری تھا کہ حکومت سندھ کارکردگی دکھائے، لہٰذا پاکستان پیپلز پارٹی کے بڑوں نے سندھ میں قائم علی شاہ کی جگہ جوان اور متحرک شخص سید مراد علی شاہ کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔

وزیر اعلیٰ بنتے ہی سید صاحب کی آنیاں جانیاں ایسی تھیں کہ عوام واقعی انہیں کام کرنے والا وزیر اعلیٰ سمجھنے لگے، روز کئی فائلوں کو نمٹانا اور وقت پر دفتر پہنچنا بھی ان کی شہرت میں اضافے کا سبب بنا لیکن ان سے بھی وہی غلطی ہوئی جو نہیں ہونی چاہیے تھی، جذبات میں آکر سندھ میں تعلیم اور صحت کے محکموں میں مسائل کو فوری حل کرنے کے لیے ایمرجنسی لگا دی۔

کوئی تو مشورہ دیتا کہ سید صاحب یہ لولی پاپ الیکشن میں دینا تھا، حکومت سندھ کی یہ ایمرجنسی اتنی بری طرح ناکام ہوئی کہ آئندہ انتخابات میں میڈیا اور عوام انہی دو محکموں کے مسائل پر زیادہ سوالات کریں گے، سید صاحب بھول گئے تھے کہ یہ سندھ ہے، یہاں وڈیروں کو ناراض نہیں کیا جا سکتا، اراکین پارلیمنٹ اور سیاسی ساتھیوں کی خواہشات بھی پوری کی جاتی ہیں چاہے ایمرجنسی ہی کیوں نہ ہو۔

اب بات کرتے ہیں سید صاحب کی محکمہ تعلیم میں تعلیمی ایمرجنسی کی بدترین ناکامی کی اور بات صرف چیدہ چیدہ چیزوں کی کریں گے، زیادہ تفصیلات میں جانا مناسب نہیں، سب سے پہلے ذکر ہوجائے اعلیٰ تعلیمی کمیشن سندھ کا جو ماہرین تعلیم کی نظر میں شاید قائم ہی ایک طاقتور شخصیت ڈاکٹر عاصم کو نوازے کے لیے ہوا ہے، کیونکہ ایک پرائیوٹ یونیورسٹی کے چانسلر اور سیاسی شخصیت کو اعلیٰ تعلیمی ادارے کا سربراہ بنانا سمجھ سے بالاتر ہے، اب بتائیں کیا ڈاکٹر عاصم سرکاری جامعات کے مفادات کو نجی جامعات پر ترجیح دے سکتے ہیں۔

چلیں انہیں سربراہ بنا ہی دیا تھا تو ان کی گرفتاری کے بعد ڈیڑھ سال گزرنے اور تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود وزیر اعلیٰ کسی اور کو ایچ ای سی سندھ کا سربراہ بنانے کی جسارت نہ کرسکے۔

اس کے بعد بات کرتے ہیں سندھ کی سب سے بڑی میڈیکل جامعہ ڈائو میڈیکل یونیورسٹی کی جہاں گزشتہ کئی سال سے تو مستقل وائس چانسلر تھا ہی نہیں لیکن وزیر اعلیٰ کی تعلیمی ایمرجنسی کے دوران بھی سید صاحب وہاں مستقل وائس چانسلر تعینات کرنے میں ناکام رہے۔

اب بات کرتے ہیں سندھ کی سب سے بڑی جنرل یونیورسٹی جامعہ کراچی کی، بقول سابق وائس چانسلر کے کہ گزشتہ 8سال میں سندھ حکومت نے صرف 10کروڑ کی گرانٹ دی، حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ جامعہ کراچی خیرات، زکوٰۃ، صدقات پر چلنے لگی ہے جہاں مرمتی کام سے لے کر واٹر کولر تک فلاحی اداروں سے مانگ کر لگائے جا رہے ہیں اور یہ سب وزیر اعلیٰ کی ایمرجنسی میں ہورہا ہے۔

کراچی میں عرصہ دراز سے کسی کو مستقل ڈائریکٹر اسکولز کراچی اور ریجنل ڈائریکٹر کراچی تعینات نہ کیا جاسکا اور ان کی غیر موجودگی میں تعلیمی معاملات کیسے چل رہے ہوں گے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے،یہ وزیر اعلیٰ کی تعلیمی ایمرجنسی کے دوران ہو رہا ہے، حد تو یہ ہوئی کہ ایک وزیر کی سفارش پر حکومت سندھ نے 20گریڈ کے ڈائریکٹر کالجز کی پوسٹ پر 19گریڈ کے جونیئر ترین افسر ضمیر کھوسو کو بغیر کسی نوٹیفکیشن مسلط کردیا اور بنا نوٹیفکیشن کے تعیناتی کی رسم بھی وزیر اعلیٰ کی ایمرجنسی میں ڈالی گئی۔

اب بات کرتے ہیں سندھ کے تعلیمی بورڈز کی جہاں عرصہ دراز سے مستقل سیکریٹری اور ناظم امتحانات کی تعیناتیاں نہ ہوسکی ہیں، ساتھ ہی کئی جامعات میں رجسٹرار، ڈائریکٹر فنانس اور ناظم امتحانات کی تقرری کرنے میں بھی حکومت سندھ ناکام رہی، آئے روز کالجز کے اساتذہ کئی سال سے اپنی ترقیاں نہ ہونے پراحتجاج کرتے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ کی تعلیمی ایمرجنسی میں بھی انہی ان کا حق نہ دے سکی۔

کراچی کے ہی کئی کالج کروڑوں روپے مالیت سے بنائے گئے لیکن افسوس وہ سرخ فیتے کی نذر ہوگئے اور وزیر اعلیٰ کی تعلیمی ایمرجنسی بھی وہاں تدریسی عمل کا آغاز نہ کرسکی، سب سے بڑھ کر طلبا کی سیکیورٹی کا منصوبہ تھا، اسے بھی نظر انداز کردیا گیا، آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد محکمہ تعلیم نے فروری 2015ء میں تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کے لیے 7ارب 63کروڑ کا منصوبہ بنایا لیکن وہ فائلوں کی نذر ہوگیا اور سید صاحب کی ایمرجنسی بھی اس منصوبے پر عمل درآمد نہ کروا سکی۔

حالات اس سے زیادہ خراب ہیں اور کچھ ایسے ہی معاملات صحت کے شعبےکے بھی ہیں، ان کا ذکر پھر کبھی، جناب سید صاحب سے ان تمام مسائل پر کئی بار مختلف مواقع پر سوالات بھی کیے مگر ان کا جواب ’’جی ہم ان معاملات کو دیکھ رہے ہیں‘‘ سے یادہ کچھ نہیں ملا، سید صاحب وقت کم ہے، ایمرجنسی ناکام ہوچکی ہے، اب ایک بڑے انسان کی طرح اپنی ناکامی کو تسلیم کریں اور ہوسکے تو ضمیر مطمئن کرنے کے لیے سیاست چھوڑ دیں ورنہ کم سے کم عہدہ ہی چھوڑ دیں، یقین جانیے آپ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔