انٹرٹینمنٹ
05 مئی ، 2017

روینہ ٹنڈن کی بالی ووڈ میں واپسی

روینہ ٹنڈن کی بالی ووڈ میں واپسی

لاچار، بے بس، سماج کے ہاتھوں پسی ہوئی،خاموشی سے ظلم برداشت کرتی ہوئی ،بیچاری سی بڑھیا ۔۔ یہ تھی ہندی فلموں کی روایتی ماں۔اس مظلوم کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں دیکھ کر’ دیوار‘ کے امیتابھ اسمگلر بن گئے۔ اسی بے بس کے آنسوں کی تاب نہ لاتے ہوئے ’کرن ارجن‘ کو دوبارہ جنم لینا پڑا۔

اور تو اور، اس کی مامتا اتنی بے قابو تھی کہ’ نمک حلال‘ کی وحیدہ رحمان منہ بو لے بیٹے کو بچانے کے لئے اپنے سگے بیٹے کو قربان کرنے کو تیار تھی۔

جب بھی بالی وڈ اس سطحی کردار کو گہرائی دینے میں کامیاب ہوا تو تاریخ لکھ دی گئی۔ ’مدر انڈیا‘، ’بھاونہ‘، ’ہزار چورسی کی ماں‘،’ واستو‘ جیسی کہانیاں امر ہو جاتی ہیں۔ اب جبکہ بالی وڈ میں ہر طرح کی کہانی کی جگہ بن گئی ہے تو ماں کے کردار کو بھی نئی شکل دی جا سکتی ہے۔

یہی کوشش کی گئی ہے 21اپریل 2017 کو ریلیز ہوئی فلم ’’ماتر ‘‘یعنی کہ ماں میں ۔حالات کے ہاتھوں مجبور ی کا شکار دکھنے کے بجائے اس فلم کی ماں بدلے کی آگ میں قتل و غارت کرتی نظر آتی ہے۔

ماضی کی مشہور اداکارہ روینہ ٹنڈن ایک طویل مدت کے بعد’ ماتر‘ میں ایک انتہائی سنجیدہ کردار میں جلوہ گر ہوئی ہیں ۔فلم کے ڈاریکٹر اشد سید ہیں جبکہ رائٹر مائیکل پلاکو ہیں۔ فلم کی نمایاں کاسٹ میں روینہ کے علاوہ دیویا جگدلے،علیشاہ خان،انوراگ اروڑہ اور مدھر متل شامل ہیں۔فلم کا میوزک ایک پاکستانی صوفی بینڈ فیوژن نے دیا ہے ۔

جیسا کہ فلم کے نام سے اندازہ ہوتا ہے کہ کہانی ایک ماں کے گرد گھومتی ہے جو ایک ا سکول کی ٹیچر ہےاور اسکول کے سالانہ فنکشن سے واپسی پر اپنی بیٹی کے ساتھ آتے ہوئے ہائی وے پرلیا ہوا ایک شارٹ کٹ نہ صرف گاڑی کے حادثے کا سبب بنتا ہے بلکہ اس کی زندگی کے تمام اجالوں کو اندھیروں میں بھی بدل دیتا ہے ۔

فلم کی کہانی معاشرے کے ان بھوکے بھیڑیوں کی ہے جو اپنی ہو س مٹانے کے لئے روینہ ٹنڈن اور اس کی بیٹی کو شکار بناتے ہیں۔رو ینہ نے اکیلی عورت کا کردار بہت خوبی کے ساتھ نبھایا ہے اور اپنی اداکاری سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب معاشرے میں عورت اکیلی ہونے کی وجہ سے کمزور اور لاچار نہیں ہے۔ وقت پڑنے پر اپنا بدلہ ان نام نہاد مردوں سے لے سکتی ہے ۔

لیکن فلم شروع سے آخر تک ضرورت سے بہت زیادہ پری ڈکٹیبل ہے۔کہانی آگے کہاں جائے گی، یہ پہلے سے ہی واضح ہے۔ اس کے باوجود فلم کا اسکرین پلے اتنا خوبصورت ہے کہ فلم بینوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ پوری فلم دیکھیں۔

فلم کو اگر جذباتی نقطہ نگاہ کے ساتھ دیکھا جائے تو فلم ٹھیک لگتی ہے لیکن اگر دیکھنے والا ذرا سی بھی منطق کا استعمال کرے تو کئی مقامات پر فلم سمجھ سے باہر ہو جاتی ہے ۔خاص کر اختتامی سین بالکل بھی قابلِ یقین نہیں۔

چھوٹے سے بجٹ کی یہ فلم شاید باکس آفس پر اتنا سحر نہ دکھا پائے لیکن آج جبکہ بھارت میں ریپ ایک وباء کی طرح پھیل گیا ہے،وہاں ایسی کہانیوں سے معاشرے کو پیغام پہنچانا ، فلم کی کمائی سے زیادہ ضروری ہے۔

مزید خبریں :