پاکستان
Time 27 نومبر ، 2017

وہاڑی سے رکن قومی اسمبلی طاہر اقبال چوہدری کا (ن) لیگ چھوڑنے کا اعلان

ختم نبوت ﷺکے حلف نامے میں تبدیلی کے معاملے پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد مستعفی ہو چکے لیکن مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں میں اس حوالے سے تاحال بے چینی پائی جاتی ہے اور کئی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اپنے تحفظات کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔

جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وہاڑی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی طاہر اقبال چوہدری کا کہنا تھا کہ ختم نبوت ﷺ کے معاملے پر حکومت اور اپنی جماعت کے کردار سے مطمین نہیں ہوں۔

انہوں نے مسلم لیگ (ن) چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی کی نشست چھوڑنے کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

طاہر اقبال چوہدری نے مزید کہا کہ ایم این اے ہونے کے باوجود نواز شریف سے ایک بار بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) جمہوری پارٹی نہیں کیونکہ یہاں ارکان اسمبلی سے مشاورت نہیں کی جاتی۔

طاہر اقبال چوہدری کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے زعیم قادری نے کہا کہ ختم نبوت کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) کا موقف بالکل واضح ہے اور یہ بل مسلم لیگ (ن) نے نہیں بلکہ پارلیمانی کمیٹی نے منظور کیا تھا۔

زعیم قادری نے کہا کہ پارٹی میں آنا اور جانا لگا رہتا ہے اور طاہر اقبال چوہدری پہلے بھی دو بار پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ ایشوز کی سیاست کرتے ہیں جو نہیں ہونی چاہیے۔

یاد رہے کہ طاہر اقبال چوہدری 2002 میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ سے الیکشن لڑے اور پھر 2008 کا الیکشن انہوں نے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر لڑا۔ طاہر اقبال چوہدری نے 2013 کا الیکشن آزاد حیثیت میں لڑا اور انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے مسلم لیگ (ن) کا حصہ بن گئے۔

طاہر اقبال چوہدری نے کہا کہ تہمینہ دولتانہ سے اختلافات کے باوجود مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوا، نواز شریف اور شہباز شریف نے میرے ساتھ جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے۔

رکن قومی اسمبلی شیخ محمد اکرم نے کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ختم نبوت ﷺ پر ہم کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر سکتے اور ہم15 کے قریب دوستوں نے شیخ حمید الدین سیالوی کو اپنے استعفے جمع کرا دیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے شیخ حمید الدین صاحب سے کہا تھا کہ حکومت کی ایک ٹیم آپ کے پاس مذاکرات کے لیے آ رہی ہے، ان کی بات سن کر آپ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ ہمیں قبول ہوگا۔

فیصل آباد سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار جٹ نے کہا کہ کل رات سے میرے حوالے سے اس قسم کی خبریں چل رہی ہیں کہ میں نے ختم نبوت کے معاملے پر اپنی پارٹی کو استعفے کی دھمکی دی ہے لیکن میرے حوالے سے چلنے والی اس قسم کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

ڈاکٹر نثار جٹ نے کہا کہ مجھے تو صبح اٹھ کر پتہ چلا کہ میں نے پارٹی چھوڑنے کی دھمکی دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد پارٹی میں دو گروپ سامنے آئے ہیں، ایک گروپ سخت رویے اور دوسرا نرم رویے کا حامی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سخت رویے کے حامی افراد اور گزشتہ روز جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے پارٹی کو بہت نقصان ہوا، ان زخموں کو بھرنے میں بہت وقت لگ جائے گا۔

ڈاکٹر نثار جٹ نے کہا کہ پارٹی نہیں چھوڑ اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی دھمکی دی ہے لیکن ختم نبوت کے معاملے پر تو پورے ایوان کو کلمہ پڑھنا چاہیے، رانا ثناء اللہ کے ساتھ اختلافات ضرور ہیں لیکن میں پارٹی کے ساتھ کھڑا ہوں اور مستعفی نہیں ہو رہا۔

انہوں نے کہا کہ راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ میں اگر کسی کا نام نہیں ہے تو اسے بحث کے لیے پارلیمنٹ میں لانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے نواز شریف کی موجودگی میں جو بیان دیا تھا وہ بالکل واضح تھا، اس سے سمجھ لینا چاہیے تھا کہ ختم نبوت کے معاملے پر پارٹی کے اندر بھی بے چینی پائی جاتی ہے اور میں اس معاملے پر شہاز شریف کے ساتھ ہوں۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ نے مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی نثار جٹ کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس کمیٹی کی رپورٹ میں ایک خاتون وزیر کا نام بھی شامل ہے، اس رپورٹ کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے ضرور پیش کیا جانا چاہیے۔

یاد رہے کہ ختم نبوت بل میں تبدیلی کے معاملے پر ایک جماعت کی جانب سے گزشتہ 21 روز تک راولپنڈی، اسلام آباد کے سنگم فیض آباد انٹر چینج پر دھرنا دیا جا رہا تھا۔

دھرنا دینے والے مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ وزیر قانون مستعفی ہوں، اس معاملے پر حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن جب کوئی حل نہ نکلا تو پولیس اور ایف سی کی جانب سے آپریشن کیا گیا۔

اس آپریشن کا ردعمل پورے ملک میں دیکھنے میں آیا اور ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماؤں چوہدری نثار، جاوید لطیف، زاہد حامد اور رانا ثناء اللہ کے گھروں پر حملے بھی کیے گئے۔

جب معاملہ بہت زیادہ سنجیدہ ہوا تو فوج کو بھی مداخلت کرنا پڑی اور پھر وفاقی وزیر قانون کے مستعفی ہونے کے بعد مظاہرین نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔

مزید خبریں :