بلاگ
Time 30 نومبر ، 2017

امریکا کی عدالت میں اسلام کی روح زندہ

ڈاکٹر عبدالمنیم نے اپنے بیٹے کے قاتل کو معاف کرکے اسلام کی تعلیمات کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا—۔فائل فوٹو

ڈاکٹر عبدالمنیم گزشتہ کئی برس سے امریکا میں رہائش پذیر ہیں اور ان کا تعلق تھائی لینڈ سے ہے، ڈاکٹر صاحب کا امریکا میں کل اثاثہ ایک چھوٹا سا گھر، بیوی اور 24 سالہ اکلوتا بیٹا صلاح الدین تھا۔

صلاح الدین پیزا ڈلیوری کرتا تھا اور ڈاکٹر صاحب اپنی ڈاکٹری سے حاصل ہونے والی آمدنی سے گھریلو اخراجات پورے کرتے تھے، یوں یہ خاندان غیر ملک میں اچھی زندگی گزار رہا تھا لیکن 2013 میں ڈاکٹر منیم کی بیوی کا انتقال ہوگیا اور ٹھیک دو سال بعد 2015 میں ایک سیاہ فام امریکی اوباش نوجوان نے ان کے اکلوتے بیٹے کو چاقوؤں کے وار کرکے قتل کردیا، یوں دیارِ غیر میں ڈاکٹر صاحب کی زندگی اجڑ کر رہ گئی۔

اس کے بعد ڈاکٹر عبدالمنیم نے بیٹے کے قتل کے مقدمے کی پیروی کو ہی زندگی کا مقصد بنالیا، عدالت لگتی رہی اور ڈاکٹر صاحب پیش ہوتے رہے، آخرکار  کئی سماعتوں کے بعد قتل کے مرکزی مجرم ٹرے ریلفورڈ کو ریاست کینٹکی کی عدالت نے 7 نومبر 2017 کو 31 سال قید کی سزا کا حکم سنا دیا۔

بظاہر عدالت نے اپنا فیصلہ سنادیا، مجرم کو سزا مل گئی اور امریکی قوانین کے مطابق ڈاکٹر عبدالمنیم کو انصاف مل گیا لیکن خاتون جج کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد ڈاکٹر صاحب کی کمرہ عدالت میں ڈیڑھ منٹ کی تقریر نے امریکی نظام عدل کے در و دیوار کو ہلا کر رکھ دیا۔

خاتون جج نے بیٹے کے قاتل کو سزا سنائی تو ڈاکٹر صاحب کے چہرے کے تاثرات بالکل بھی نہ بدلے، وہ آگے بڑھے اور کٹہرے میں کھڑے مجرم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'میں تمھیں اپنے بیٹے کا قاتل نہیں سمجھتا'، ڈاکٹر صاحب کے اس جملے نے بھری عدالت میں سکتہ طاری کردیا، کمرہ عدالت میں سناٹا چھا گیا اور ڈاکٹر صاحب کی آواز گونجتی رہی۔

نہایت اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر منیم نے قاتل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، 'تم نہایت اچھے نوجوان ہو لیکن تمھیں شیطان نے میرے بیٹے کو قتل کرنے پر اُکسایا اور تم غلطی کر بیٹھے'، ڈاکٹر صاحب بولتے رہے اور کمرہ عدالت میں موجود افراد حیرت سے ان کو تکتے رہے۔

ڈاکٹر عبدالمنیم(دائیں) اور قاتل ٹرے ریلفورڈ (بائیں)—۔

ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ 'اللہ کو درگزر کرنا نہایت پسند ہے اور کسی کو معاف کردینا اسلام میں سب سے بڑا صدقہ ہے، لہذا اسلامی تعلیمات کے مطابق میں اپنے اکلوتے بیٹے کا خون معاف کرتا ہوں'، اس کے بعد ڈاکٹر منیم نے اپنے لخت جگر کے قاتل کو ناصرف معاف کیا بلکہ اسے سینے سے بھی لگایا۔

امریکی نظام عدل نے شاید یہ مناظر پہلی مرتبہ دیکھے ہوں کہ ایک باپ اپنے بیٹے کے قاتل کو نا صرف معاف کرتا ہے بلکہ نہایت اعلیٰ کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے سینے سے بھی لگاتا ہے۔

یہ مناظر خاتون جج سے دیکھے نہ گئے اور وہ آنکھوں میں آنسو لیے سماعت ملتوی کرکے کمرہ عدالت سے باہر چلی گئیں، یہاں تک کہ استغاثہ کی خاتون وکیل بھی زار و قطار رو پڑیں۔

یہ نبی آخرالزماں ﷺ کی وہ تعلیمات تھیں جس کا عملی مظاہرہ ڈاکٹر منیم نے امریکا کی عدالت میں دکھایا، ڈاکٹر صاحب کے اس عمل کو مغربی میڈیا میں بھی خوب سراہا گیا اور بظاہر ان کی خوب تعریف کی گئی لیکن درحقیقت ڈاکٹر صاحب نے اپنے عمل سے دنیا کو نبی آخرالزماں ﷺ کی تعلیمات کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا۔

جس وقت امریکی پالیسی ساز اسلام کو بدنام کرنے کے لیے ریڈیکل (بنیاد پرست) اسلام، اسلامک ٹیرارزم (دہشت گردی)، اسلامک ایکسٹریمزم (شدت پسندی) اور ریڈیکل جہاد جیسی اصطلاحات متعارف کرا رہے تھے، اس وقت ڈاکٹر عبدالمنیم نے امریکی عدالت میں کھڑے ہو کر اسی اسلام کی تعلیمات کی ایک جھلک دکھلائی اور امریکی پالیسی سازوں پر اسلام کی تعلیمات آشکار کیں۔

ڈاکٹر صاحب کا عمل فروغ اسلام کے لیے سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کرنے والی ان تنظیموں اور افراد کے لیے ایک خاموش درس ہے جو پرتشدد راستے کا انتخاب کرتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کے طرز عمل سے اسلام مخالف قوتوں پر وہ اثر پڑا جو شاید کبھی طاقت یا بے جا بحث سے نہیں پڑ سکتا تھا۔

اگر ڈاکٹر صاحب کی طرح نبی آخرالزماں ﷺ کی تعلیمات کے لیے ہم اپنے دلوں کو کشادہ کریں اور صبر، صلح رحمی اور درگزر کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں تو شاید مخالفین کو اسلام پر براہ راست حملے کرنے کے لیے جواز ہی نہ ملے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔