جنید جمشید کو بچھڑے ایک برس بیت گیا

جنید جمشید 7 دسمبر 2016 کو طیارہ حادثے میں اللہ کو پیارے ہوگئے تھے—۔فائل فوٹو

معروف نعت خوان اور ماضی کے مقبول گلوکار جنید جمشید کو ہم سے بچھڑے ایک برس بیت گیا، لیکن ان کی یادیں اور آواز آج بھی سب کے دلوں میں زندہ ہے۔

 7 دسمبر 2016 کو جنید جمشید بھی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے اُس بدقسمت طیارے میں سوار تھے، جو چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے تھے حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہوا، اس سانحے میں طیارے کے عملے سمیت 48 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

اس حادثے میں ہم سے بچھڑنے والے 52 سالہ جنید جمشید اپنی اہلیہ کے ہمراہ چترال میں تبلیغی دورے کے بعد اسلام آباد جا رہے تھے۔

جنید جمشید لاہور میں واقع یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے فارغ التحصیل تھے۔

انہوں نے موسیقی کے کیریئر کا آغاز میوزک بینڈ وائٹل سائنز سے کیا اور پہلے البم کی ریلیز نے ہی اس بینڈ اور اس کے مرکزی گلوکار جنید جمشید کو شہرت کی ایسی بلندیوں تک پہنچایا جس کی مثال آج بھی ملنا مشکل ہے۔

 1987 میں ریلیز ہونے والے گیت 'دل دل پاکستان' نے خاص طور پر جنید جمشید کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا، ان کے بینڈ کو پاکستانی 'پنک فلوائڈ' کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔

بعدازاں وائٹل سائنز کے فرنٹ مین کے طور پر چار اسٹوڈیو البمز کی کامیابی کے بعد انہیں اپنے سولو کریئر میں بھی خاصی شہرت حاصل ہوئی اور 1999میں ریلیز کی گئی ان کی دوسری سولو البم کے کئی گیت اُس دور کے سوپر ہٹس میں شامل ہیں۔

تاہم 2002 میں اپنی چوتھی اور آخری پاپ البم کے بعد اسلامی تعیلمات کی جانب ان کا رجحان بڑھنے لگا اور ماضی کے پاپ اسٹار ایک نعت خواں کے طور پر ابھرتے نظر آئے۔

یہی وہ وقت تھا جب جنید جمشید نے گلوکاری کو خیرباد کہہ دیا اور مذہب کی تبلیغ اور حمد و نعت سے وابستہ ہوگئے اور ہمیں 'محمد کا روضہ قریب آرہا ہے' اور 'میرا دل بدل دے' جیسی خوبصورت نعتیں سننے کو ملیں۔

نعت خوانی اور اپنے ملبوسات کے برانڈ سمیت جنید جمشید گزشتہ سالوں میں ماہ رمضان کی خصوصی نشریات اور پروگراموں میں بطور میزبان بھی نمایاں رہے۔

جنید جمشید کو 2007 میں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔

 2014 میں انہیں دنیا کی 500 بااثر مسلم شخصیات میں بھی شامل کیا گیا تھا۔


مزید خبریں :