ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ

آج 1400سال گزرنے کے بعد دنیا میں اگر کسی مظلوم کی یاد زندہ ہے تو وہ ہے امام حسینؓ کی، ان کے خاندان کی اور ان کے عظیم الشان ساتھیوں کی۔

حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساتویں صدی عیسوی کے وہ انقلابی رہنما تھے جنہوں نے یزید کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا تھا، صرف انکار ہی نہیں بلکہ شہزادی کونین بی بی فاطمہؓ اور امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے جگر کے ٹکڑے نے اپنے نانا رسولِ خدا محمد مصطفی ﷺ کا دین بچانے کے لئے وہ قدم اٹھائے جو رہتی دنیا کے لئے ایک مثال بن گئے۔

آج 1400سال گزرنے کے بعد دنیا میں اگر کسی مظلوم کی یاد زندہ ہے تو وہ ہے امام حسینؓ کی، ان کے خاندان کی اور ان کے عظیم الشان ساتھیوں کی۔ یزید چاہتا تھا کہ امام حسینؓ بیعت کرلیں اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو نظر انداز کرکے خاموشی سے زندگی گزاریں مگرامام حسینؓ کا وہ جملہ آج تک یزیدی سوچ پر ایک کرارا طمانچہ ہے "مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا" یزید اور اس کے بعد دیگر حکامِ وقت نے ہر ظلم کرکے دیکھ لیا، اتنے سال گزرنے کے بعد بھی حسین پر آنسو بہانے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

کچھ روایات کے مطابق ہزاروں کے لشکر کا سامنا 72 سے تھا۔ صبح شروع ہونے والی جنگ عصر کے وقت ختم ہوگئی تھی۔ امام حسینؓ کے گھر کی خواتین کو قید کردیا گیا۔ یزید کو خوش فہمی تھی کہ اس نے حسینؓ کو شہید کرکے اپنی حکومت کو قائم و دائم رکھنے کے لئے راستہ ہموار کرلیا ہے مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ نواسہ رسول نے ایک ایسی تاریخ رقم کردی ہے جو رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گی۔

حسین ابنِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تو شہید کردیا گیا لیکن خدا کا کرنا کچھ ایسا تھا کہ ان کے بیٹے امام زین العابدین بقیدِ حیات رہے۔ امام زین العابدین اور امام حسین کی ہمشیرہ زینب بنت علی کے خطبات آج بھی تاریخ کی کتابوں میں گونج رہے ہیں۔

یہ وہ خطبات تھے جنہوں نے یزید کی ظالم حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ سوئی ہوئی قوم کو جھنجھوڑا اور ایسا جھنجھوڑا کہ 1400 سال گزر جانے کے بعد بھی وہ ظالم، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت لوگوں کے دلوں سے نکالنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ محبت ہر طرح کی محبت سے الگ ہے، اگر آپ اسے دیکھنا چاہتے ہیں تو ’’اربعین واک‘‘ کیجئے۔

اربعین واک کو عراقی " مشی (Mishi)" کہتے ہیں، سنی، شیعہ، عیسائی اور یہودی سمیت نہ جانےکون کون حضرت حسینؓ سے اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے عراق پہنچتے ہیں۔ مجھے بھی موقع ملا کہ میں جگر گوشہ رسول امام حسینؓ کے دربار میں اربعین پر حاضری دے سکوں۔

سنا تو بہت تھا مگر جب دیکھا تو دیکھتا رہ گیا، ایک امید سی ہو گئی کہ انسانیت زندہ ہے، ابھی سچ اور جھوٹ میں فرق باقی ہے، ابھی حق اور باطل میں جنگ جاری ہے۔ خدا کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی ذرا دیر سے سمجھ میں آتی ہے مگر جب آتی ہے تو انسان دنگ رہ جاتا ہے اور شکر بجالاتا ہے، بے ساختہ حمدِ باری تعالیٰ میں مشغول ہوجاتا ہے، اس کو کہتے ہیں معجزہ۔

جب کوئی خدا کی مرضی کو اپنی مرضی بنالیتا ہے تو خدا اس کو وہ مقام عطا کردیتا ہے جو بادشاہ بھی نہیں سوچ سکتے۔ حسینؓ کی دلوں پر حکومت اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہر سال لاکھوں لوگ اربعین میں شرکت کرتے ہیں۔

اربعین میں کتنے لوگ شامل تھے اس پر اکثر بحث ہوتی ہے، میرا جواب یہ ہے کہ یہ مت دیکھو کہ کتنے پہنچے، کیسے پہنچے اور کہاں کہاں سے پہنچے، بلکہ یہ دیکھو کہ جب پہنچے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے، پیروں پر چھالے تھے مگر انہیں اس کی تکلیف کا کوئی احساس نہ تھا۔

جو چل نہیں سکتا وہ وہیل چیئر پر پہنچا، نیز یہ کہ کربلا معلیٰ پہنچنے سے پہلے ہی آپ کی آنکھیں کھل چکی ہوتی ہیں اور دل رسول اکرم ﷺ اور اہلبیت کی محبت سے سرشار ہوتا ہے۔

جب ہم عراق پہنچے تو ’اربعین واک‘ کو اربعین واک کہہ رہے تھے، ائیر پورٹ پر لوگوں نے ’مشی مشی‘ کرنا شروع کیا تو کافی دیر بعد سمجھ میں آیا کہ یہ مشی کیا ہے پھر لوگوں نے سمجھایا کہ عربی میں جب کوئی نہ زیادہ تیز چلتا ہے اور نہ زیادہ آہستہ چلتا ہے یعنی معتدل چلے تو اسے ’مشی‘ کہتے ہیں۔

یوں تو لوگ بصرہ، ایران اور افغانستان سے ٹرکوں، بسوں پر اور سب سے بڑھ کے پیدل چل کے ’مشی‘ کرتے اور کربلا پہنچتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ نجف اشرف میں حضرت علیؓ کے روضے سے اپنا پیدل سفر شروع کرتے ہیں۔

لندن سے نکلتے ہوئے ہمیں یہ لگ رہا تھا کہ ہیتھرو (Heathrow) پر تو ضرور روکا جائے گا لیکن جب ہم ہیتھرو ٹرمینل 2 پہنچے تو احساس ہوا کہ ایئرپورٹ پر سیکیورٹی والے بخوبی جانتے ہیں کہ امام کا چہلم ہے اور ہم سب زائر ہیں۔ عموماً پاکستانی، انڈین، امریکن، برٹش یعنی بین الاقوامی زائر استنبول اور دوحہ سے ہوتے ہوئے نجف یا بصرہ پہنچتے ہیں۔ ہمیں برطانیہ کی صورت حال ترکی میں بھی دیکھنے کو ملی ۔

عراق کے لوگ شاید پورا سال اربعین آنے کا انتظار کرتے ہیں، لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ زائرین کے ساتھ کیا کریں، ہم نے بھی نجف میں کچھ ایسا ہی دیکھا، ابو قرار کا کام تھا ہمیں ائیر پورٹ سے امام علیؓ کے روضے تک پہچانا مگر وہ ہمیں زبردستی گھر لے گیا۔

ہم 17 افراد تھے سب نے کھانا کھایا، تازہ دم ہوئے، کچھ نے موقع غنیمت جان کر نیند پوری کی، پتا چلا کہ یہ تو سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ ابھی تو شروعات ہے، نجف پہنچتے ہی ہم نے دیکھ لیا کہ اربعین پر صرف شیعہ نہیں ہیں بلکہ بے شمار سنی بھائی بھی امام حسین سے اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے پہنچے ہوئے ہیں۔

کوئی زائر اگر سنی مسلم ہو اور نماز ادا کررہا ہے تو لوگ اسے بوسہ دیتے ہیں، اس کے لئے خاص جگہ بنائی جاتی تھی وہ نماز ختم کرتا تو اس کے سامنے تبرکات کا ایک ڈھیر ہوتا، کوئی جوس لا کر دیتا کوئی آریان یعنی لسی دیتا، کوئی عراقی حلوہ تو کوئی چائے کا کپ پکڑا دیتا۔

میری کئی سنی بھائیوں سے بات ہوئی، وہ بھی ہماری طرح حیران تھے کہ لوگوں میں کوئی تعصب نہیں پایا جاتا۔ حالانکہ ٹی وی پر تو دکھایا جاتا ہے کہ عراقی شیعہ سنی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ شاید حسینؓ اس سب شیعہ سنی معاملے سے بالاتر ہیں اور جو محبت اور اخوت مجھے کربلا اور نجف میں دیکھنے کو ملی اس کی مثال نہیں ملتی۔

موسم خوشگوار تھا ہر طرف نوحے، مرثیے اور نعتوں کی گونج تھی۔ ہم نے چلنا شروع کیا تو ایک ہی گھنٹے میں لنگر سے پیٹ بھر چکا تھا اور ہمارے ساتھ چائے کے شوقین افراد تین چار طریقے کے مختلف قہوے سے لطف اندوز ہوچکے تھے۔

ہر طرف موکب تھے یعنی آرام کرنے کی جگہ، جو عراقی عارضی طور پر زائرین کے لئے قائم کرتے ہیں۔ ان موکبوں میں کھانے پینے کا انتظام تو ہوتا ہی ہے، وضو کرنے کے لئے صاف پانی، آرام کرنے کے لئے بستر، تکیے اور کمبل بھی موجود ہوتے ہیں۔

کھانے پینے پر بہت زور ہے اور ہمارے ساتھ چند ایک لنگر لوٹنے کے ماہر افراد کافی ناراض نظر آئے کیونکہ لنگر لوٹنا نہیں پڑتا تھا۔ لوگ پکڑ پکڑ کے آپ کو کھانا کھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر موڑ پر شوارما، حریسا اور دیگر کھانے پینے کی چیزیں موجود تھیں۔

مجھ سے کہا گیا تھا پیسے نہ رکھنا اور واقعی پورے سفر میں ہم نے کھانے پینے پر ایک ریال بھی خرچ نہیں کیا۔

کچھ کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ کپڑے گندے ہوجائیں تو موکب میں دھل جاتے ہیں۔ فون چارج کرنا ہو تو چارجر دستیاب ہیں، انٹرنیٹ چاہیے ہو تو وائرلیس ہاٹ اسپاٹس قائم ہیں، طبیعت خراب ہوجائے تو ڈاکٹرز اور نرسیں موجود ہیں۔

کھانا پینا صاف ستھرا اور بہترین، سب کچھ دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ عراق کی غریب عوام جو سالوں سے جنگ کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں یہ سب کچھ خود کرتے ہیں۔ لوگ سارا سال محنت کرکے پیسے بچا کے زائرین کی خدمت کرتے ہیں۔

90 کلو میٹر کی واک کوئی آسان مرحلہ نہیں ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کے مجمع میں 17 لوگوں کا ساتھ ساتھ چلنا مشکل ہے۔ کوئی تیز چلتا ہے اور کوئی آہستہ، یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے لوگ ایک دوسرے کو پول کی نشانی بتاتے ہیں، بچھڑ گئے تو پول نمبر فلاں پر ملنا۔

نجف سے کربلا تک کوئی 1500 پول ہیں۔ 20 پول ایک کلو میٹر اور ایک پول سے دوسرے پول کے درمیان کا فاصلہ بنتا ہے 50 میٹر ۔ یہ پول نمبر امام علیؓ کے روضے کے 9 کلو میٹر کے بعد شروع ہوتے ہیں اور حضرت عباس علمدارؓ کے روضے سے 8 یا 9 کلو میٹر پہلے ختم ہوجاتے ہیں۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہر پول پر ایک شہید کی تصویر ہے ہر موڑ پر ان جوانوں کی تصویریں ہیں جنہوں نے اپنی قیمتی جانیں داعش سے لڑتے ہوئے دے دیں۔

عراق میں بیشتر گداگر بیوہ عورتیں اور یتیم بچے نظرآتے ہیں، ان بچوں اور بیواؤں کی مالی امداد کے لیے مختلف مقامات پر چندے کے ڈبے نصب ہیں۔ حالات دو سال پہلے سے بہتر ہیں مگر ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔

دو دن تین راتیں چلنے کے بعد جب آپ کربلا پہنچتے ہیں اور پہلی بار آپ کو امام حسین کی فوج کے سپہ سالار حضرت ابولفضل عباس ابن علی کا روضہَ مبارک نظر آتا ہے تو لوگوں کے بے ساختہ آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔

آج واقعہ کربلا کے 1400 سال بعد مسلمان لبیک یاحسین، لبیک یا حسین کہتے کربلا کی سر زمین میں داخل ہوتے ہیں تو انسان کو وہ وقت یاد آجاتا ہے کہ جب امام حسین نے " حل من الناصرینصرنا “ کی آواز لگائی تھی اور ان کی نصرت کے لئے کوئی موجود نہیں تھا۔

اربعین امام حسینؓ کی شہادت سے ٹھیک 40 دن بعد منایا جاتا ہے۔ عراق کے سابق صدر صدام حسین کی حکومت میں زائرین چھپ چھپ کر یہ سفر کرتے، مگر کرتے تھے۔

کہتے ہیں کہ جب فوجی پکڑ لیتے تو ظلم کی انتہا کردیتے تھے، کئی ایسے لوگ ملے جنہوں نے اپنے اعضا کٹوا کر نواسہ رسول ﷺ سے اپنی محبت کی قیمت ادا کی اور آج جب راستے کھل چکے، وہ اسی طرح پہنچتے ہیں۔

میری ملاقات ایسے لوگوں سے بھی ہوئی جو چالیس بار سے زیادہ دفعہ یہ واک کرچکے ہیں اور رکنے کا نام نہیں لیتے، سب کا یہی کہنا تھا کہ جو ایک بار آتا ہے بار بار آتا ہے۔ کربلا ایک حیران کردینے والے مقام کا نام ہے۔ اربعین کے موقع پر وہاں صفائی کا انتظام دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے، لوگ رضاکارانہ طور پر صفائی کرنے والوں میں اپنا نام لکھوا دیتے ہیں اور ساری رات صفائیوں میں مصروف رہتے ہیں۔

ایک صفائی کرنے والے صاحب سے ملاقات ہوئی جو بحرین کے کسی مشہور اسپتال میں ڈاکٹر تھے۔ ہم نے پوچھا کہ جناب آپ تو ڈاکٹر ہیں یہاں اور بہت کام کرسکتے ہیں وہ بہت زور سے ہنسے، ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ کربلا میں رضا کارانہ طور پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کی ایک لمبی ویٹنگ لسٹ ہے تو انہیں جو کام مل گیا خوشی خوشی قبول کرلیا۔

حضرت امام حسینؓ کے روضے کی شان بیان کرنا مشکل ہے۔ آپ گوگل پر تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔ تصویریں دیکھ کر بھی آپ کو سمجھ میں نہیں آئے گا کہ وہاں اس روضے کے سامنے محبت کرنے والوں کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ کربلا کی سرزمین پر وہ تمام مقامات آج بھی موجود ہیں جہاں امام حسین اور ان کے گھر والوں پر 10 محرم کو قیامت گزر گئی۔

گلیوں میں ڈھونڈنے سے مقام علی اکبر، مقام علی اصغر بھی مل جائے گا۔ وہ مقامات بھی موجود ہیں جہاں حضرت عباس کے بازو قلم ہوئے، وہ ٹیلہ زینبیہ آج بھی وہاں موجود ہے جہاں سے بی بی زینبؓ نے اپنے بھائی کو شہید ہوتے دیکھا تھا۔

ہم اربعین کے اگلے دن کربلا سے روانہ ہوگئے، علی الصبح ہوٹل سے باہر نکلے تو دیکھا سڑکیں شیشے کی طرح صاف ہیں، لوگ واپس جارہے ہیں، میں بھی 9 گھنٹے بعد لندن میں تھا، بہت تھک گیا تھا اور دل وہیں کربلا میں چھوڑ آیا تھا۔

عراق میں عیسائیوں کو امام حسینؓ پر روتا دیکھا، ہندوؤں کو ثناء خوانی کرتے دیکھا، شعر کہتے دیکھا، سکھوں کو نوحہ پڑھتے دیکھا، زائر، امام حسینؓ کی محبت میں آسٹریلیا، امریکا اور انگلینڈ کے علاوہ ان ممالک سے بھی پہنچے تھے جہاں اربعین پر امام حسینؓ کے روضے پر حاضری دینا برا سمجھا جاتا ہے۔

انڈونیشیا، ملائیشیا، سعودی عرب، چین اور جاپان کے لوگوں کو دیکھ کر جوش ملیحہ آبادی کے اس بڑے شعر کا مطلب واضح ہوگیا ۔

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ