’’میرے شہید بیٹے کو کس نے مارا؟‘‘
14 سالہ محمد شہیر خان کی ماں کا سوال
میں نے کبھی ان لوگوں کی تصویریں نہیں دیکھیں جنہوں نے میرے بیٹے اور اس کے کلاس فیلوز کو قتل کیا۔ مجھے ان دہشت گردوں کی شکلیں دکھائی جائیں جنہوں نے میرے 14 سالہ بیٹے کو مارا۔ بالکل اسی طرح جیسے زرعی یونیورسٹی کے پشاور کیمپس حملے میں ملوث دہشت گردوں کی تصویریں میڈیا پر دکھائی گئیں۔
اگر میں غصے میں لگ رہی ہوں تو بالکل! مجھے غصہ ہے۔ ہمارے بچوں کا خون بہانے کی قیمت کسی نہ کسی کو چکانی پڑے گی۔ میں اپنے بچوں کو کیا بتاؤں کہ ان کے بھائی کو کس نے شہید کیا؟ میں ان کی حفاظت کس طرح کروں جب کہ مجھے علم ہی نہیں کہ مجھے کن سے ان کی حفاظت کرنی ہے؟ 16 دسمبر کے سانحے کے تین دن بعد شہید بچوں کے والدین نے ایک گروپ بنایا تاکہ ہم ان کے قاتلوں کے خلاف مشترکہ طور پر اپنی آواز بلند کرسکیں۔
فوج نے ہمارے ساتھ معلومات شیئر کیں۔ کور کمانڈر پشاور نے ایک بار ہمیں یہ بتانے کے لیے اپنے دفتر بلایا کہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں۔ ہمارے خاندان تباہ ہوگئے، ہم زندہ لاشیں ہیں۔ ہاں ہم اپنے روزمرہ کے کام ضرور کرتے ہیں کیوں کہ وقت کا پہیہ کبھی نہیں رکتا۔
مجھے معلوم ہے کہ یہ آپ کو غلط لگے گا لیکن میں چاہتی ہوں کہ حملہ آوروں اور ان کے سہولت کاروں کو ہمارے سامنے لایا جائے۔ میں چاہتی ہوں کہ حکام ہم سے آکر کہیں کہ، ’’یہ ہیں وہ لوگ‘‘۔ اس کے بعد ہم جو سلوک چاہیں گے ان کے ساتھ کریں گے۔
کاش میں 16 دسمبر کی تاریخ کیلنڈر سے مٹا سکتی۔ یہ دن ہر سال آجاتا ہے اور مجھے اپنے اس بیٹے کی یاد دلاتا ہے جسے میں کھوچکی ہوں اور اس بیٹے کی بھی جو زخمی ہوا تھا۔
تین برس قبل اس روز مجھے میرے بھتیجے کا فون آیا جو ریسکیو سروس میں کام کرتا ہے، اس نے مجھے بتایا کہ اسکول پر حملہ ہوا ہے۔ اس وقت پشاور میں تقریباً آئے روز ہی خود کش حملے ہوتے تھے لیکن پھر بھی میں خوفزدہ نہیں تھی۔ میں نے اطمینان سے اسے کہا کہ، ’’وہ ایک آرمی اسکول ہے، وہ اپنا کام بخوبی کریں گے۔ تم فکر مت کرو‘‘۔ مجھے اتنا بھروسہ، اتنا یقین تھا۔ لیکن 15 منٹ بعد میں نے اسے دوبارہ فون کیا، میرا دل ڈوبا جارہا تھا۔ میرے خیال سے شاید یہ وہی لمحہ تھا جب انہوں نے میرے بچے کو مار ڈالا۔
انہوں نے میرے بیٹے کو اس وقت گولی ماری جب وہ آڈیٹوریم سے باہر نکلنے کی کوشش کررہا تھا۔
مجھے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد تھا۔ میرا شہید بیٹا انجینئر بننا چاہتا تھا، اس کی موت سے ایک ہفتہ قبل میں نے اسے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ پاک فوج میں شامل ہو۔
اب ہم سب تکلیف سے گزررہے ہیں، ہم سب والدین دکھی ہیں۔ مجھے اکثر غشی کے دورے پڑتے ہیں اور جوڑوں میں سوزش بھی ہوگئی ہے۔
جب میں اُس اسکول کو دیکھتی ہوں جسے میرے بیٹے کے نام سے منسوب کیا گیا ہے تو مجھے فخر ہوتا ہے۔ میرا بیٹا تو چلا گیا لیکن کوئی چیز تو ہے جس نے اس کا نام زندہ رکھا ہے۔ لیکن جلد ہی یہ فخر تکلیف میں بدل جاتا ہے۔ میرا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں اور بس اس کی تصویریں ہی رہ گئی ہیں۔
شگفتہ طاہر 14 سالہ محمد شہیر خان کی والدہ ہیں جو 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے حملے میں شہید ہوا۔ انہوں نے آفتاب احمد کو اپنی داستان سنائی۔
پروڈیوسرز : محمد خالد حسین، سجاد حیدر، بے نظیر شاہ اور نتاشہ محمد زئی