’کوئی نہیں چاہتا کہ ہم آواز اٹھائیں‘
14 سالہ نور اللہ اور 13 سالہ سیف اللہ کی ماں کی صدا
بیٹوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ ان سے خاندان کا نام آگے بڑھے گا، لیکن میرے بیٹے اب نہیں رہے، میرے دونوں بیٹے نور اللہ اور سیف اللہ 16 دسمبر کو شہید ہوگئے۔ اب گھر میں صرف میں، میرے شوہر اور تین بیٹیاں ہیں۔
نوراللہ نویں جماعت اور سیف اللہ آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا، میں نے انہیں بڑے لاڈ اور پیار سے پالا تھا۔ میں ایک اسپتال میں نرس تھی، لیکن جب وہ میری دنیا میں آئے تو ان کا اچھی طرح سے خیال رکھنے کے لیے میں نے ملازمت چھوڑ دی۔
چونکہ میرے شوہر پاک فوج کا حصہ تھے اور ان کی مختلف مقامات پر پوسٹنگ ہوتی رہتی تھی لہٰذا ہمیں ہر تھوڑے عرصے بعد گھر بدلنا پڑتا تھا۔ میرے لیے اس سے زیادہ کوئی بات اہم نہیں تھی کہ میرے بچے اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کریں۔
نوراللہ جب بڑا ہوا تو اس کی خواہش تھی کہ وہ میٹرک کے بجائے او لیولز کرے لہٰذا میں نے اس کی خواہش پوری کرنے کے لیے دوبارہ کام کرنا شروع کردیا۔ ہر روز جب میں رات کو گھر واپس لوٹتی تو میرے بچے کچن کے کاموں میں میرا ہاتھ بٹانے آجاتے تھے۔ نوراللہ بہت اچھی اور بالکل گول روٹیاں بناتا اور سیف اللہ چائے بناکر دیتا تھا۔
اُس وقت کچھ مشکلات تھیں لیکن آس پاس بہت سی خوشیاں تھیں مگر اب کچھ بھی باقی نہیں رہا۔
تین برس ہوچکے ہیں اور ہم اب بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ میں، میرے شوہر اور دیگر شہید بچوں کے والدین ہر جگہ گئے، میڈیا، سیاستدان اور افسران سب سے بات کی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ کوئی یہ نہیں چاہتا کہ ہم آواز اٹھائیں۔ یہاں تک کہ میڈیا بھی ہمارے مکمل بیانات نشر نہیں کرتا۔
کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، نہ وفاقی حکومت، نہ صوبائی حکومت اور نہ ہی فوج۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے آرمی پبلک اسکول پاکستان میں نہیں تھا۔
لیکن میں ہمت نہیں ہار رہی، میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ اگر انصاف کے حصول کے لیے ہمیں اقوام متحدہ تک بھی جانا پڑا تو جائیں گے۔
مجھے جواب چاہئیے، انہوں نے کن پر مقدمے چلائے اور کن لوگوں کو پھانسی دی؟ مجھے نہیں معلوم کہ وہ لوگ کون تھے اور انہوں نے اصل میں کیا کیا تھا۔ انہیں کب کہاں سے پکڑا گیا؟ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ یہ لوگ پہلے سے جیل میں قید نہیں تھے؟ اگر آپ ان میں سے بعض کی پروفائل پڑھیں تو آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ انہیں 2010 میں پکڑا گیا تھا۔ ان لوگوں کا کیا ہوا جنہوں نے اس حملے میں سہولت کاری کی؟ وہ لوگ جو دہشت گردوں کو ہمارے بچوں، میرے بیٹوں تک لے کر آئے، وہ کہاں ہیں؟
یہ میرا گھر ہے اور میں ایک عورت ہوں لیکن اگر میں بھی گھر کے دروازے پر کھڑی ہوجاؤں تو کوئی اندر داخل ہونے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
ایسا لگتا ہے کہ ہم نے جن لوگوں سے بھی بات کی وہ ایک طے شدہ اسکرپٹ پڑھ رہے تھے۔ ہم نے انہیں ہلاک کردیا، پھانسی لگادی وغیرہ وغیرہ، خوش ہوجائیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ اس حملے کے بعد آرمی کے 9 حاضر سروس افسران کو برطرف کردیا گیا۔
جب ہم نے لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمٰن (سابق کور کمانڈر پشاور) سے ملاقات کی تو انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ خفیہ ہے اور منظر عام پر نہیں لائی جائے گی۔
میرے دونوں بیٹے بہت ذہین تھے۔ سیف اللہ کو الیکٹرانک آلات کے پرزے الگ کرکے انہیں دوبارہ جوڑنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ میرے پاس اب بھی وہ ٹارچ ہے جو اس نے ایک پرانے موبائل فون سے تیار کی تھی۔ شہادت سے دو دن پہلے جب ایک خاتون نے اس سے پوچھا کہ وہ بڑا ہوکر کیا بنے گا تو اس نے کہا تھا کہ، ’’میں پائیلٹ بنوں گا اور اپنے والدین کو حج پر لے کر جاؤں گا‘‘۔
میری بیٹیاں مجھ سے کہتی ہیں کہ چھوڑیں امیّ، کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ میں ان سے کہتی ہوں کہ میں اپنے بیٹوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتی۔
کوئی اس بات کا احساس نہیں کرسکتا کہ میری جیسی ایک ماں ہر روز کس کرب سے گزرتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ لاشوں کے ڈھیر سے میں نے اپنے بچوں کو کس طرح تلاش کیا؟ میں نے اپنے چھوٹے بیٹے کو اس کے جوتوں سے پہچانا، میں نے ہی اسے نئے جوتے خرید کر دیئے تھے۔ اپنے بڑے بیٹے کا پتہ مجھے اس وقت چلا جب ایک فوجی افسر نے مجھے اس کا موبائل فون دیا۔
وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو کبھی نہیں بھولیں گے، لیکن کچھ عرصے بعد سب بھول گئے۔ لیکن میں کوشش کے باوجود یہ نہیں بھول سکتی کہ میرے بیٹوں کے ساتھ کیا ہوا۔
فلک ناز 14 سالہ نور اللہ اور 13 سالہ سیف اللہ درانی کی والدہ ہیں جن کے دونوں بیٹے 16 دسمبر کو آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے حملے میں شہید ہوئے۔ انہوں نے اپنی المناک داستان آفتاب احمد کو سنائی۔