’بی بی صاحبہ کی خوشیاں بھی دیکھیں اور غم بھی‘

شہید محترمہ بینظیر کی کہانی بھٹو خاندان کے فوٹوگرافر آغا فیروز کی زبانی

45 سال۔۔۔۔۔ یا یوں کہہ لیں کہ ایک عمر میں نے بھٹو خاندان کی تصویریں اتارتے گزار دی۔ جب خاتونِ اول بیگم نصرت بھٹو کا فوٹوگرافر بنا، تب عمر صرف 17 سال تھی۔ آج 65 سال کا ہو گیا ہوں اور اب تو آنکھیں بھی ساتھ چھوڑ رہی ہیں۔ بس یہ دعا کرتا ہوں کہ اس دن تک نظر قائم رہے، جب بلاول بھٹو یا پیپلز پارٹی کا کوئی اور رہنما آ جائے اور میرے پاس محفوظ تاریخ کو اپنی تحویل میں لے لے۔

بینظیر بھٹو—۔فوٹو/آغا فیروز

میں نے بھٹو خاندان کے ایک ایک فرد کو تصویروں میں محفوظ کیا۔ بیگم صاحبہ سے بھٹو صاحب تک اور پھر ان کے چاروں بچوں کو بھی۔ آصف علی زرداری کی بھی کئی تصویریں کھینچیں لیکن میری پسندیدہ شخصیت بی بی صاحبہ ہی تھیں۔

میں نے بی بی صاحبہ کو بچپن سے جوان ہوتے دیکھا۔۔۔۔۔اور پھر میری بدقسمتی رہی، کہ ان کو آخری سفر بھی طے کرتے دیکھا۔۔۔۔

اپنے والد کی طرح بی بی کو بھی اپنے لوگوں سے بے پناہ محبت تھی۔ جب بی بی عوام میں گھری، ان سے باتیں کر رہی ہوتیں، تو میں خاموشی سے ان کی تصویریں بناتا رہتا۔ کچھ ایسی تصویریں ہیں میرے پاس جن میں بی بی فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ورکرز کے ساتھ چائے پی رہی ہیں۔

سب سے زیادہ خوش بھی تب ہی ہوتی جب اپنے عوام کے لیے کچھ بانٹنے کے لیے لاتی تھیں۔ زمین کے مالکانہ حقوق، نوکریاں یا کوئی بھی تحفہ لے کر جب غریبوں تک پہنچتیں، تو خوشی سے ان کا چہرہ کھِل جاتا۔

جس طرح ان کی خوشی دیکھنے کا موقع ملا وہیں ان کا دکھ دیکھنا بھی نصیب ہوا۔

عام طور پر ہمت نہ ہارنے والی بی بی کو میں نے دو دفعہ غم سے نڈھال دیکھا۔ پہلی مرتبہ اس دن جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے سوئم پر کوئی مرد نہیں آیا ۔ بی بی، اپنے والد کی موت پر افسردہ، چار عورتوں کے ہمراہ انتطار ہی کرتی رہ گئیں۔ دوسری مرتبہ میر مرتضی بھٹو کے قتل پر غم سے نڈھال دیکھا۔ میں اسپتال میں ہی موجود تھا جب بی بی روتی ہوئی اندر داخل ہو رہی تھیں۔ ان کو مرتضی بھٹو کی میت دکھائی گئی تو بلک بلک کر رونے لگیں ۔


27 دسمبر کو بھی میں بی بی صاحبہ کی تصویریں کھینچ رہا تھا۔ وہ جلسے میں اسٹیج پر بیٹھی تھیں اور میں سامنے کھڑا تھا۔ اس دن بی بی بہت خوش تھیں۔ ان کے چہرے پر رونق تھی۔ لیکن مجھے جو بات حیران کر رہی تھی وہ بی بی کا اپنے اصول توڑ کر گلے میں پھولوں کا ہار پہننا۔ بی بی کبھی بھی پھولوں کا ہار نہیں پہنتی تھیں، حتیٰ کہ اپنی شادی پر بھی نہیں ۔ اگر کوئی ہار پہنانے کی کوشش کرتا تو ہاتھ میں تھام لیتیں۔ لیکن اس دن بی بی نے اسٹیج پر بھی ہار پہنے رکھا ، تقریر کے دوران بھی اور جلسے کے بعد گاڑی تک جاتے ہوئے بھی ہار نہ اتارا۔ میں نے دوستوں سے کہا کہ "اللہ خیر کرے، بی بی ہار کیوں نہیں اتار رہیں۔۔۔۔"

اور قسمت کی ستم ظریفی کہ جب دن ختم ہوا تو بی بی کی میت پر پھولوں کے ہار رکھے گئے۔

دسمبر 2017 میں کراچی میں منعقد کی گئی بینظیر بھٹو کی تصاویر کی نمائش کے موقع پر آغا فیروز موجود ہیں—۔فوٹو: علی طارق/ جیو ڈاٹ ٹی وی

اس دن سے شروع ہونے والا صدمہ دس سال بعد بھی ختم نہیں ہوا۔ آج حالات یہ ہیں کہ ڈیڑھ سال سے میں بے روزگار ہوں اور اب ان تصویروں کا خیال نہیں رکھ سکتا اور چاہتا ہوں کہ کوئی مجھ سے یہ تصویریں لے کر میوزیم میں رکھ دے۔ بس یہی خواہش ہے کہ بوریاں بھری 70 سے زائد تاریخ کے ان اوراق کو ان کے راکھ ہونے سے پہلے پیپلز پارٹی اپنی امانت اور اپنے خزینے کو سنبھال لے۔


آغا فیروز بھٹو خاندان کے فوٹوگرافر تھے۔ انہوں نے اپنی داستان جیو ٹی وی کی نتاشہ محمد زئی سے بیان کی۔