ہر دسمبر میرے لیے دکھ بھری یادیں لاتا ہے۔ مجھے اس تاریک دن کی سرد ہوا نہیں بھولتی، جس دن میری لیڈر اور میری سیاسی استاد، بینظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔
27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں منعقد ہونے والا جلسہ ہماری انتخابی مہم کا اہم حصہ تھا۔ اس دن بی بی پر جوش تھیں، چہرے پر رونق تھی۔ ہمیں یقین تھا کہ الیکشن میں جیت ہماری ہی ہو گی۔
کہتے ہیں کہ جن کا وقت قریب ہو ان کو اس کا علم ہو جاتا ہے اور وہ اپنے آخری دنوں میں غیر معمولی باتیں کرتے ہیں، شاید بی بی کے ساتھ بھی ایسا ہی تھا۔
جب ہم تقریر سے پہلے اسٹیج پر بیٹھے تھے، بی بی نے مجھ سے پوچھا کہ "تمہیں سامنے والے درختوں کے درمیان کچھ نظرآ رہا ہے؟" میں نے غور سے دیکھنے کے بعد کہا کہ نہیں، صرف درخت ہی ہیں۔ مجھ سے پہلے بی بی نے مخدوم امین فہیم سے بھی یہی پوچھا تھا اور انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ بی بی مسکرا ئیں اور کہا کہ شاید ان کی نظر کمزور ہو گئی ہے۔
چند لمحوں بعد بی بی نے اپنی تقریر کرنے سے پہلے، ہزاروں دیکھنے والوں کے سامنے، پارٹی کے امیدواروں سے عہد لیا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے بجائے عوام کی خدمت کریں گے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری بی بی کو اپنے عوام سے کتنی محبت تھی۔
ان کے آخری دنوں کو یاد کرنا میرے لیے باعث تکلیف ہے، لیکن پھر بھی کوشش کرتی ہوں کہ لکھ سکوں کہ کیا ہوا۔
شہید ہونے سے ایک ہفتے پہلے ان کی مصروفیات عروج پر پہنچ چکی تھیں۔ 22 دسمبر کو انہوں نے شہدادکوٹ میں ایک جلسے سے خطاب کیا۔ یہ نادر مگسی کا حلقہ تھا اور بی بی کا بھی۔ جلسے کے بعد نادر مگسی نے شاہانہ دعوت کا اہتمام کیا، جس میں بی بی کے پسندیدہ پکوان، کنول ککڑی اور امرود بھی تھے۔ وہاں سے ہم گڑھی خدا بخش کی جانب روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک تالاب کے کنارے، کچھ بچے کھیلتے دکھائی دیے۔ بی بی نے نثار کھوڑو سے کہہ کر گاڑی رکوائی اور بچوں میں عیدی بانٹی۔
مزار پر پہنچ کر بی بی پہلے اپنے والد صاحب کی قبر پر نہیں گئیں۔ پہلے انہوں نے اپنے دیگر رشتہ داروں کی قبروں پر فاتحہ پڑھی اور خورشید جونیجو سے کہا کہ ان قبروں کی بھی مرمت کروائی جائے۔ جب اپنے چچا سکندر علی بھٹو کی قبر پر پہنچیں تو کتبے پردیکھا کہ وفات کے وقت ان کی عمر صرف 41 برس تھی۔ میری طرف پلٹیں اور ہنس کر کہا "میری عمر 54 برس ہو چکی ہے"۔
بھٹو خاندان کے بارے میں ایک روایت تھی کہ ان کی عمر 50 سے زیادہ آگے نہیں جا پاتی۔ بیماری یا کوئی سانحہ ان کی جان لے لیتا ہے۔ وقت کی ستم ظریفی کہ بی بی بھی اپنے ہی لفظوں میں اپنا مقدر بیان کر گئیں۔
آخر میں بی بی اپنے بھائیوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھ کر مقبرے سے نکلنے ہی لگی تھیں کہ یکدم رک گئیں اورخورشید جونیجو سے پوچھا کہ مقبرے کی تعمیر کا کام کب ختم ہو گا۔ "اس کو جلد از جلد مکمل کر لیں۔ آخر مجھے بھی یہیں آنا ہے"۔ میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا تو اپنے الفاظ کو درست کرتے ہوئے کہنے لگیں "ایک دن تو ہم سب کو یہیں آنا ہے"۔ آپ یقین نہیں کریں گے لیکن جہاں بی بی کھڑی تھیں، یہ وہی جگہ ہے جہاں وہ دفن ہیں۔
خورشید جونیجو نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ بھٹو صاحب کی سالگرہ کی تقریب کے لیے یہاں آئیں گی تو بی بی نے کہا "نہیں، میں نہیں آ پاؤں گی"۔ پھرجلدی سے کہا "اس دن سیاسی مصروفیات ہیں"۔
بی بی کی باتوں اور رویے سے مجھے تشویش ہو رہی تھی۔ کیا بی بی نے یہ سب یونہی کہہ دیا تھا یا انہیں آنے والے دنوں کا الہام ہو گیا تھا؟ اب سوچتی ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اگلے روز لاڑکانہ کے اسٹیڈیم میں بہت بڑا جلسہ ہوا۔ بی بی نے یادگار تقریر کی۔ اپنے والد سے مخاطب ہو کر کہا "اے قائدِ عوام، تیری یہ بیٹی اور تیرے یہ بیٹے تجھے ابھی تک نہیں بھولے"۔ ایک بیٹی کے سینے میں موجود اپنے والد کا درد ابھی تک صاف نظر آتا تھا۔
اس شام پارٹی قائدین سے چار گھنٹے طویل ملاقات کی اور پھر رحیم یار خان کے لیے روانہ ہو گئیں۔ اپنے آبائی شہر میں یہ ان کا آخری قیام تھا۔ جب سندھ کی طرف واپس لوٹیں تو دفن ہونے کے لیے۔
دسمبر 27 کو جلسے کے بعد بی بی نے مجھے، صفدر عباسی اور مخدوم امین فہیم کو اپنے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے کو کہا اور ہمیں ہدایت کی کہ ان حلقوں کی نشاندہی کریں جہاں آصف علی زرداری دورہ کر سکتے تھے۔ وہ انتخابی مہم کا حصہ بننا چاہتے تھے، حالانکہ بی بی چاہتی تھیں کہ وہ دبئی میں بچوں کے پاس رہیں۔
انتخابی منصوبہ بندی کرتے ہوئے بی بی بہت پر جوش تھیں۔ کامیاب جلسے پر مجھے گلے لگا کر مبارکباد دی۔ انہیں معلوم تھا کہ راولپنڈی میرا شہر ہے، اس لیے جلسے کے انتظامات کا سہرا میرے سر تھا۔
جیپ باہر کے گیٹ کی طرف روانہ تھی جب بی بی نے مجھ سے کہا کہ میاں نواز شریف کا فون ملاؤں تاکہ بی بی ان سے تعزیت کر سکیں۔ ایک خبر گردش کر رہی تھی کہ میاں صاحب کے جلسے پر گولیاں برسائی گئیں ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے آٹھ کارکن جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ لیکن فون ملانے سے پہلے بی بی نے گاڑی کے اردگرد جمع عوام کو ہاتھ ہلانے کا فیصلہ کیا۔
باہر اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا اور گاڑی کے کالے شیشوں سے باہر کم کم نظر آ رہا تھا۔ یکدم گولیوں کی آواز آئی اور پھر بم پھٹ گیا۔ بی بی میری گود میں گر گئیں، ان کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ میں تو ہوش کھو بیٹھی اور چیخنے لگی۔ صفدر عباسی اور امین فہیم نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ جلدی سے گاڑی کو اسپتال تک پہنچائے۔ لیکن ٹائر پھٹ چکے تھے اور بیک اپ گاڑی غائب ہو گئی تھی۔ پھر بھی ہم راولپنڈی جنرل اسپتال کی طرف روانہ ہوئے۔ بالآخر گاڑی اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی رک گئی۔ ہم نے ٹیکسی روکنے کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ شیری رحمان کی گاڑی پہنچ گئی ہے، اس میں ہم نے بی بی کو اسپتال تک پہنچایا۔
رات ڈھلنے سے پہلے، ہمارا سیاسی سفر ختم ہو چکا تھا۔ ہماری بی بی ہمیشہ کے لیے جا چکی تھیں۔
ان کے جانے کے بعد والے دنوں، مہینوں اور سالوں میں کئی دفعہ میں نے بی بی صاحبہ کی موجودگی کو محسوس کیا ہے۔ ہاں، میں اب ان کو دیکھ نہیں پاتی۔ موت کو اتنے قریب سے دیکھ کر مجھے مرنے کا ڈر بھی نہیں رہا۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے اور اس کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
بی بی کے جانے کے بعد پارٹی کارکن اپنی عظیم لیڈر سے محروم ہو گئے۔ بینظیر بھٹو کی پارٹی زوال کا شکار ہے، یہ پارٹی نوجوانوں، وکیلوں، خواتین، کسانوں اور مزدوروں کی پارٹی تھی۔ بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی اپنی پارٹی اور اپنے وطن کے لیے وقف کر دی تھی اور جان بھی دی تو اپنے ملک میں ۔۔ اپنے لوگوں کے درمیان۔
ناہید خان، بینظیر بھٹو کی قریب ترین ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔