وہ ہنسی نہیں بھولتی ۔۔۔

سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کی محترمہ بینظیر بھٹو کے حوالے سے کچھ یادیں

دس سال بیت گئے، لیکن اب بھی یقین نہیں آتا کہ محترمہ نہیں رہیں۔ ان کا اور میرا ساتھ بہت پرانا تھا۔ گوکہ میرا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے تھا، لیکن میں نے عملی سیاست میں حصہ لینے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا۔ مجھے سیاست میں لانے والی بینظیر بھٹو ہی تھیں۔

1996 میں بی بی نے خود مجھ سے کہا کہ میں پیپلز پارٹی کا حصہ بن جاؤں۔ تب پارٹی پر کڑا وقت گزررہا تھا۔ بی بی کی دوسری حکومت کو حال ہی میں برطرف کیا گیا تھا اور اس سے کچھ دن قبل ہی میر مرتضیٰ بھٹو کا قتل ہوا تھا۔ بھٹو خاندان کے امتحان کی گھڑی میں بی بی کو انکار کرنا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔

18 اکتوبر2007 کےاستقبالیے کے حفاظتی انتظامات کی ذمہ داری مجھے اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو سونپی گئی تھی۔ تمام مصروفیات نمٹا کر، رات 2 بجے ہم دونوں بی بی کے ساتھ میٹنگ کرتے تھے۔ اشاروں اور سرگوشیوں میں بی بی سیکیورٹی کے خدشات سے آگاہ کرتی تھیں۔ سانحہ کارساز سے پہلے باقی لیڈران کوعلم نہیں تھا کہ بی بی کی جان کو کس قدر خطرہ لاحق تھا۔

فہمیدہ مرزا کی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ساتھ لی گئی ایک یادگار تصویر—۔

ٹکٹ ہولڈرز چاہتے تھے کہ بی بی ان کے حلقوں میں آ کر جلسے کریں، ریلیاں نکالیں، لیکن یہ ممکن نہ تھا۔ بی بی صرف اُن حلقوں میں جا سکتی تھیں جہاں دہشت گردی کے خدشات قدرے کم تھے۔ ہماری ہر میٹنگ میں پنجاب کا آنے والا دورہ ایک بڑا سوالیہ نشان بن کر سامنے آتا تھا۔ جس طرح کے حفاظتی انتظامات بی بی چاہتی تھیں، وہ ان کو نہیں مل رہے تھے۔

اسلام آباد میں ان کو چار دن کے لیے نظر بند کر دیا گیا۔ اس عرصے میں مجھے لگا کہ بی بی بہت بے چین ہیں۔ وہ گھرمیں موجود باقی سب افراد کے سونے کے بعد سوتی تھیں اور سب سے پہلے جاگ کر اپنی کتاب لکھتی رہتی تھیں۔

ان کے بچے چاہتے تھے کہ وہ واپس آجائیں، شاید ان کے ذہن پر یہی پریشانی سوار ہو۔

فہمیدہ مرزا کی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ساتھ لی گئی ایک یادگار تصویر—۔

آخرکار بی بی بچوں کے ساتھ وقت بتانے دبئی چلی گئیں۔ یہاں پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کر دی اور بی بی کو جلدی واپس آنا پڑا۔ لیکن اب ان میں بڑی تبدیلی آ چکی تھی۔ آنکھوں میں چمک تھی اور چہرے پر مسکراہٹ۔ مجھ سے کہا "میں بہت خوش ہوں کہ واپس آ گئی ہوں"۔

انہی دنوں میں اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا الیکشن ٹریبیونل کے سامنے پیش ہوئے۔ جب واپس آئے تو بی بی نے پوچھا کہ کیا بنا؟ میں نے بتایا کہ مجھے تو کلئیر کر دیا گیا ہے لیکن ڈاکٹر مرزا کو جج نے کہا کہ "جی جا جی کے کام میں ابھی دیر ہے" اور کلئیر نہیں کیا۔ یہ سن کر بی بی ہنسنا شروع ہو گئیں اور باقی سارا دن "جی جا جی" کا لفظ یاد کر کے ہنستی رہیں۔

وہ ہنسی اور وہ چمکتی آنکھیں مجھے بھولتی نہیں۔

ہماری آخری ملاقات 17 دسمبر2007 کو ہوئی۔ بی بی نے حیدرآباد میں جلسہ کیا تھا۔ رات 12 بجے میں نے ڈاکٹر مرزا کے ہاتھ بی بی کو پھولوں کا گلدستہ بھیجا۔ مجھے یاد تھا کہ یہ ان کی شادی کی سالگرہ تھی۔

فہمیدہ مرزا سابقہ اسپیکر قومی اسمبلی ہیں