پھر کچھ اس دل کو بیقراری ہے

بارش دِلوں کے اندر تک سرائیت کرنا جانتی ہے۔ دل میں پہنچنے کے بعد اس کا پہلا ہدف یادوں کی لائبریری ہوتا ہے۔ بہت کچھ یاد آنے لگتا ہے۔

لومڑیوں کے لئے بھَٹ ہیں، پرندوں کے لئے گھونسلے مگر ابنِ آدم کا کوئی ٹھکانہ نہیں: انجیل مقدس

موسمی تغیرات نے انسان کو ہمیشہ سے اپنا اسیر رکھا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے چاند گرہن اور خزاں نے بہت متاثر رکھا ہے۔

شمال میں خزاں کا آغاز ہوتے ہی میرے اندر کھلبلی مچنے لگتی ہے۔ مسافر کی خاص ازلی حس انگڑائی لینے لگتی ہے۔ دل تیز دھڑکنے لگتا ہے۔ یہ میرے ساتھ ہی انہونا نہیں ہوتا بلکہ ہر وہ مسافر جو خزاں رُت میں ایک بار شمال کا سفر کر چکا ہے وہ سمجھ سکتا ہے۔ پہاڑوں پر رنگ بکھرنے لگیں تو سفیدی پھرے اپنے گھرکے کمرے میں بیٹھے رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔

جس سرد شام کو میں نے ایک بار پھر اسکردو کی سرزمین پر قدم رکھا، ہوا میں خُنکی تیر رہی تھی۔ وادی میں دور دور تک برقی قمقمے جل اُٹھے تھے۔ پرندوں کے جوڑے بسیرا لینے درختوں کی سمت جا رہے تھے۔ دریائے سندھ اُتر چکا تھا اور یوں سست رو بہہ رہا تھا کہ گمان ہونے لگتا جیسے پانی کو بند باندھ کر مقید کر دیا ہو۔ سطح پر نہ کوئی موج نہ بُلبلہ۔ گویا اک بڑا سا آئینہ وادی کے بیچ رکھ دیا ہو جس میں برف پوش پہاڑ اور پربت اپنی صورت دیکھ سکیں۔

ہوا کی ایک سرد لہر آئی تو میں سفر کی تھکاوٹ سمیٹے ہوٹل کے کمرے میں چلا گیا جن بستیوں سے سفر کرتے میں یہاں تک پہنچا تھا وہ خواب بن کر نازل ہونے لگیں۔

سامان کی ٹوکری اٹھائے ایک شخص سڑک کنارے اپنی منزل کی جانب گامزن — فوٹو: سید مہدی بخاری
وادی غذر میں خزاں کا منظر— فوٹو: سید مہدی بخاری
نگر خاص میں سورج طلوع ہونے کے بعد خزاں کا دلکش منظر— فوٹو سید مہدی بخاری 
وادی گوجال میں ایک بچہ خزاں کے پتوں کے ساتھ — فوٹو: سید مہدی بخاری

راولپنڈی کی بھِیڑ سے نکلا تو ہزارہ آیا۔ واه سے مُڑتے ہی ہری پور، حویلیاں روڈ پر ہزاره میں سفر کرتے ہوئے آپ نے کبھی نوٹ کیا ہے کہ سارا علاقہ گنجان آباد ہونے کے ساتھ ساتھ کتنا رنگین بھی ہے؟

عمارتوں و گھروں پر ہوئے شوخ رنگ، سرخ دیواریں، سبز اور سنہری شیشوں کا تعمیرات میں جا بجا استعمال اور کہیں کہیں سے نظر آتے سبز کچور اور ہلکے زرد کھیت و باغ، شام کی دُھوپ جب ان عمارتوں ، کھیتوں اور شیشوں پر پڑتی ہے تو کچھ اور بھی منظر رنگین ہو جاتے ہیں۔

مانسہره سے شنکیاری اور بٹگرام تک چائے کے چھوٹے چھوٹے باغات، چاولوں اور سرسوں کے کھیت، ویسی ہی شوخ رنگی عمارتیں۔ خطہ ہزارہ سارے کا سارا ہی شوخ اور جلتا ہوا حُسن ہے بالکل نئی نویلی دُلہن جیسا۔ لشکارے مارتا، چھَب دکھلاتا،گرماتا۔

شیر دریا سندھ پر بنے تھاکوٹ کے پل کو عبور کریں تو آگے بشام، پٹن، داسو تک ایک سی وحشت اور اداسی ہے۔ قراقرم ہائی وے کالے پہاڑوں کے درمیان باریک کالی لکیر کی صورت بَل کھاتی چلی جاتی ہے۔

’اپر کچورا جھیل‘ کنارے خزاں کے رنگ — فوٹو: سید مہدی بخاری
پھندر ویلی میں جھیل کنارے خزاں کے حسین مناظر — فوٹو: سید مہدی بخاری
اسکردو میں درخت خزاں کے موسم کا اعلان کرتے ہوئے — فوٹو: سید مہدی بخاری
شگر فورٹ میں ایک رہائش گاہ — فوٹو: سید مہدی بخاری

کالے سیاہ بنجر پہاڑوں کی ہیبت کے بیچ کہیں برف سے لدی چوٹیاں بھی دکھائی پڑتی ہیں۔ ہوا میں عجب بے چینی جو ہر جھونکے کے ساتھ پھیلتی جاتی ہے۔

یہ ایک اداس کر دینے والا وحشت زده حُسن ہے جو دل کو چین نہیں لینے دیتا جیسے دوشیزه کالے بال کھولے آنکھوں میں سرمہ لگائے ملول ہو بقول منیر نیازی۔۔۔

حُسن تو بس دو طرح کا ہی خوب لگتا ہے

یا آگ میں جلتا ہوا

یا برف میں سویا ہوا ...!

چلاس کے قریب پہنچ کر کوہستان کا حُسن اپنی وحشت جتنا ہی پھیل جاتا ہے اور وادیاں وسیع ہونے لگتی ہیں۔

دریائے سندھ کا پاٹ پھیل جاتا ہے مگر اس کی ہیبت میں ذرا فرق نہیں آتا۔ جگلوٹ تک آتے آتے شاہراہ ریشم، ریشم کی طرح ملائم تو ہو جاتی ہے، پر اطراف کے سیاہ ہیبت ناک پہاڑوں کے سائے میں ہی رہتی ہے۔

دیوسائی کا مقام ’بڑا پانی‘ کا دلکش منظر — فوٹو: سید مہدی بخاری
اسکردو کے ’کولڈ ڈیزرٹ‘ میں رات کا دلنشین منظر — فوٹو: سید مہدی بخاری
دیوسائی کے مقام ’بڑا پانی‘ کا ایک اور حسین منظر —فوٹو: سید مہدی بخاری
اسکردو کے یخ بستہ ’کولڈ ڈیزرٹ‘ کا لانگ ایکسپوزر — فوٹو: سید مہدی بخاری

جگلوٹ سے ایک سڑک شاہراہ ریشم کو چھوڑتی ہوئی دائیں ہاتھ اسکردو کی سمت مڑ جاتی ہے۔ اس تنگ و بَل کھاتی سڑک پر آٹھ گھنٹوں کے سفر کے بعد اسکردو آتا ہے اور جب آتا ہے تب تک مسافر تھکن سے چُور ہو چکا ہوتا ہے۔

 کہتے ہیں کہ پُل صراط کے آخر میں جنت ملتی ہے، اب آپ جنت میں ہیں۔

خواب در خواب سفر کرتے صبح جب آنکھ کھُلی تو دھوپ کھڑکی سے اندر آ چکی تھی۔ ٹیرس پر نکل کر دیکھا تو اسکردو کی وادی پر خزاں کے قاصد لپک رہے تھے۔

پاپولر کے درختوں پر زردی چڑھ آئی تھی۔ دھوپ کی کرنیں پیلے پتوں پر اُترتیں تو ایک خاص زاویے سے وہ سونے کی طرح چمک اُٹھتے۔

میں نے کیمرا بیگ کاندھوں پر لٹکایا اور اسکردو کی بھِیڑ میں گم ہونے نکل گیا، شام ہونے کو آئی تو اسکردو شہر سے ذرا فاصلے پر بسے کٹپناہ گاؤں کے صحرا میں آن پہنچا۔ بادل کا ایک بڑا ٹکرا اوپر سے گزرتے ہوئے برسات کرنے لگا۔

پہاڑی سلسلے مشابرم اور شایوک ندی کو ملانے والے ڈیلٹا کا منظر — فوٹو: سید مہدی بخاری
 
وادی غذر کی صبح کا ایک منظر — فوٹو: سید مہدی بخاری
پھنڈر کے مقام پر دریائے غذر  کا خوبصورت انداز — فوٹو: سید مہدی بخاری
وادی گوجال میں خواتین خوبانی خشک کرنے کے بیٹھی ہیں — فوٹو:سید مہدی بخاری

بوندیں سارا دن سورج کی تمازت میں جلتے ریت کے ٹیلوں پر پڑیں تو یادوں کا دھواں اُٹھنے لگا۔

زندگی کی طرح بارش کے بھی بے شمار روپ ہیں۔ بارش کی مختلف آوازوں نے مجھے زندگی بھر اپنا اسیر رکھا ہے۔ میں نے ان آوازوں کو پہاڑوں، میدانوں، ریگستانوں، جنگلوں، برف زاروں، شہروں، ویرانوں، ہنگاموں اور تنہائی میں بہت دفعہ سنا ہے۔

کبھی کبھی یہ آوازیں اور ان کے سُر جب اندر کے موسموں سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں تو زندگی کچھ ایسے اسراروں سے پردہ اٹھاتی ہے جنہیں صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ کیفیات کے اظہار میں بعض اوقات الفاظ گونگے کے اشاروں سے بھی زیادہ مبہم ہو جاتے ہیں۔

 بارش کا ماضی کی یادوں سے کیا تعلق ہے؟ بارش کا رومانیت سے کیا تعلق ہے؟ بارش کی آواز کھڑکیوں کے شیشوں ، درختوں کے پتوں ، چھت کی منڈیروں سے ہوتی ہوئی کس طرح خیالوں ، سوچوں میں جل ترنگ بجاتی ہے؟ اور کیسے بارش میں بھیگ کر مٹی کی خوشبو مساموں میں اترتی چلی جاتی ہے؟ میرے پاس اس کی وضاحت کے لئے کوئی عقلی یا سائنسی دلیل تو نہیں میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ بارش کی آواز میرے لئے فطرت کا حسین تحفہ ہے۔

وادی غذر کی کھلتی جھیل میں خواتین کے کپڑے دھونے کا منظر— فوٹو:سید مہدی بخاری
دریائے گوجل پر حسینی گاؤں کا خطرنک پل —فوٹو: سید مہدی بخاری
دریائے ہنزہ کا خوبصورت منظر —فوٹو: سید مہدی بخاری
وادی پھنڈر میں بچے پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے محظوظ ہورہے ہیں— فوٹو: سید مہدی بخاری

بارش دِلوں کے اندر تک سرائیت کرنا جانتی ہے۔ دل میں پہنچنے کے بعد اس کا پہلا ہدف یادوں کی لائبریری ہوتا ہے۔ بہت کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ 

اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ گزارا ہوا خوبصورت وقت ، بہت اچھی اچھی باتیں اور یادیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نہ جانے کون کون سے دکھ بھی خود رو پودوں کی طرح نکل آتے ہیں اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی پھیلا دیتے ہیں۔

یہ ہریالی اور بارش کے بعد کا نیلا دُھلا دُھلایا آسمان جو منظر پیش کرتا ہے وہ اُداس تو ضرور کرتا ہے۔ اس شام بھی کچھ ایسا ہی موسم تھا۔ میں موسم کھُلنے کا انتظار کرنے لگا۔ شام پھیلتی گئی اور پھر صحرا میں رات ہوئی۔

 آسمان کھُلا، چاند نکلا، ستارے نمودار ہوئے، صحرا میں لگے بیری کے درختوں کی اداسی نکھرنے لگی۔ چاندنی نے ریتلے ٹیلوں کو لپیٹ میں لیا تو منظرپاگل کرنے لگے۔ اس سے پہلے کہ میں مبہوت ہو جاتا قدم شَل ہو جاتے میں وہاں سے چل دیا۔

وادی خپلو  —فوٹو: سید مہدی بخاری
وادی ہنزہ کا دلکش منظر —فوٹو: سید مہدی بخاری
راکا پوشی نگر کا شمالی منظر —فوٹو: سید مہدی بخاری
وادی ہنزہ کا دل موہ لینے والا منظر — فوٹو: سید مہدی بخاری

اگلی صبح میرا ارادہ شنگریلا ریزارٹ اور کچورا جھیل جانے کا تھا۔ صبح کی پہلی پہلی روپہلی کرنوں کا ہمسفر ہوا۔ کچھ تو درختوں کو خزاں نے زرد کر دیا تھا کچھ سورج کی روشنی میں مزید دہکے جاتے تھے۔ 

سارا دن کچورا گاؤں کے اطراف میں بسر ہو گیا۔ شام ڈھلی تو کچورا جھیل نظر کے سامنے کھُلے۔ وہی نیلگوں پانی جن کو پہلے بھی کئی بار نظر میں سمو چکا مگر اب کی بار خزاں کی حاشیہ برداری نے جھیل کو زیور اوڑھا دیا تھا۔

خزاں رنگ کی تلاش مجھے اگلی صبح بلتستان کے ضلع گھانچے کے صدر مقام خپلو کی سمت لے گئی۔ دریائے سندھ کا ساتھ چھُوٹا تو دریائے شیوک ہمسفر ہوا۔ سڑک پر سفر کرتے دریائے شیوک کے فیروزہ رنگ پانیوں کے پار کی خزاں رسیدہ بستیاں زرد و سُرخ رنگ پہنے گزرتی رہیں۔ خپلو کے آتے دن ڈھلنے لگا۔

میں نے پی ٹی ڈی سی میں چیک ان کروایا اور پھر خپلو کے جنگلوں میں اُترگیا۔ پت جھڑ کا موسم بھی کیا موسم ہوتا ہے۔ جنگل کی زمین پیلے مرجھائے پتوں سے سجی تھی جیسے کسی نے نارنجی قالین بچھا دیا ہو۔ اس قالین پر میں مہاتما بدھ کی طرح آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔

وادی خارمنگ کا دلفریب منظر —فوٹو: سید مہدی بخاری
دیو مالائی پہاڑی سلسلے ’پاسو کونز‘ کا ندی کے پانی پر عکس کا خوبصورت منظر —فوٹو: سید مہدی بخاری
وادی خپلو کی شاہراہ پر گاڑی منزل کی جانب گامزن —فوٹو: سید مہدی بخاری
وادی اپر ہنزہ — فوٹو: سید مہدی بخاری

مہاتما بدھ نے پیڑ تلے بیٹھے بیٹھے جھڑتے پتّوں سے مٹھی بھری اور آنند کی طرف دیکھا:

’’اے آنند! کیا سارے پتّے میری مٹھی میں آ گئے ہیں؟‘‘

آنند جھجکا۔ پھر بولا،’’آقا! یہ رُت پت جھڑ کی ہے۔ جنگل میں اتنے پتّے جھڑتے ہیں کہ اُن کی گنتی نہیں ہو سکتی۔ ‘‘

مہاتما بدھ بولے، ’’اے آنند! تُو نے سچ کہا ہے پت جھڑ کے اَن گنت پتّوں میں سے مَیں بس مٹھی بھر ہی سمیٹ سکا ہوں۔ یہی گُت سچائیوں کی ہے۔ جتنی سچائیاں میری گرفت میں آئیں، مَیں نے اُن کا پرچار کیا، پر سچائیاں تو اَن گنت ہیں۔ پت جھڑ کے پتوں کے سمان۔ سب سچائیاں بھلا کس کو ملتی ہیں؟ یہ مٹھی بھر سچائیاں ہی تو اِس جیون کا سبھاؤ ہیں۔ ‘‘

مکمل سچ کبھی کسی کو نہیں ملا۔ ہم اپنے حصے کے سچ ہی سمیٹتے ہیں وہ بھی محدود سے جو خود کو اپنی ذات کو سچ لگتے ہوں۔ ایک انگریز نے کیا خوبصورت کہا تھا " ان پر یقین کرو جو سچ کی تلاش میں نکلتے ہیں مگر ان پر شک کرو جو کہیں کہ ہم نے سچ کو پالیا"۔

سالٹرو کا پہاڑی سلسلہ —فوٹو: سید مہدی بخاری
شنگریلا ریزورٹ کا حسین منظر — فوٹو: سید مہدی بخاری
شنگریلا ریزورٹ کا بالائی منظر — فوٹو: سید مہدی بخاری
بتورا گلیشیائی جھیل میں سورج غروب ہونے کا منظر — فوٹو: سید مہدی بخاری

اِدھر قراقرم کے پہاڑوں میں کئی ایسے ویرانے ہیں جہاں انسان کو گیان مل سکتا ہے بات ساری دھیان کی ہے مگر مکمل سچ کو کون پا سکا ہے؟ تلاش میں اگلی صبح میں نے بلتستان کو چھوڑ دیا۔

میری منزل ہنزہ کی وادیاں تھیں جہاں دھوپ ایسی ہی چمک رہی تھی ، جہاں خزاں کے قاصد یونہی لپک رہے تھے اور جہاں میرے ایک دوست نے گلمت کے حسین گاؤں میں روایتی کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ دن سارا جیپ کے اندر ہچکولے کھاتے بِیت گیا۔

رات پھیلنے لگی تھی جب پسو کونز چاندنی میں لپٹی نظر پڑیں۔ گلمت میں قدم پڑا تو دریائے ہنزہ کے کنارے بہتی یخ ہوا نے جیسے صور پھونک دیا ہو۔ وادی تاریک و ویران تھی۔ لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ کرفیو سا سماں تھا۔ دریا کا شور، پسو کونز، چاند اور میں۔

مقامی لوگوں نے میری مہمان نوازی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ اگلا دن میں اپنے میزبانوں کے تکلف سے شرمسار گلمت کی گلیوں میں گھومتا رہا۔ گلگت بلتستان کے لوگ اتنے بااخلاق و مہمان نواز ہیں کہ انسان کو خود پر ندامت ہونے لگتی ہے۔

وادی نگر میں اسکول کے بچے گھر جانے ہوئے —فوٹو: سید مہدی بخاری
پاکستان کے یخ بستہ مقام اسکردو کا ایک منظر — فوٹو: سید مہدی بخاری
شیوسار جھیل دیوسائی کا دلفریب منظر — فوٹو: سید مہدی بخاری
وادی گوجال میں ننھی پری باغ میں کھیلتے ہوئے — فوٹو: سید مہدی بخاری

حسینی گاؤں کے تاریخی پُل پر پہنچا۔ اس پُل کو دوبارہ سے مرمت کیا گیا ہے۔ کبھی یہ جھولتا پُل دنیا کے دس خطرناک ترین پُلوں میں شمار ہوتا تھا۔ اب بھی کوئی بڑے دل والا ہی اسے پار کر سکتا ہے۔

 مجھے تو ایک قدم لینے پر چکر آنے لگے۔ نیچے دریائے ہنزہ سردیوں میں کم پانی ہونے کی وجہ سے گو کہ تھم تھم کے بہہ رہا تھا مگر اونچائی نے مجھے چکرا دیا۔ پہاڑوں میں ایک اور شام ڈھلنے لگی تو مسافر نے شب بسری کو ہوٹل کی راہ لی۔

نئی صبح کی کرن ہوٹل کے دالان میں اُتری تو میں نے ضلع غذر کی وادی پھنڈر جانے کا فیصلہ کیا۔ گو کہ اب تو آنکھوں میں بھی خزاں کی پیلاہٹ اُترنے لگی تھی مگر غذر کی وادی پھنڈر سے میرا رومانیت کا ایک خاص رشتہ ہے اور پھر جب پھنڈر خزاں رسیدہ ہو تو اسے دیکھے بنا گھر لوٹ جانا سفر ادھورا کرنے کے مترادف ہے۔

 گاڑی غذر کی بستیوں میں دوڑتی رہی۔ دریائے غذر ہمسفر رہا ، کھلتی جھیل پر چند لمحے دھوپ میں سستانے کو رکا تو مقامی بچوں نے کیمرا دیکھ کر مجھے گھیر لیا۔ 

ان گُل پاروں کے ساتھ وقت بتاتے دو گھنٹے بِیت گئے۔ پھنڈر کی وادی میں جب قدم پڑا تو سورج پہاڑوں کی اوٹ لینے کو بیقرار تھا۔

وادی خپلو کے قریب واقع مقام — فوٹو: سید مہدی بخاری
اپر کچورا جھیل کا سحر انگیز کرنے والا منظر — فوٹو: سید مہدی بخاری
دریائے شایوک — فوٹو: سید مہدی بخاری
اپر کچورا جھیل کا سحر انگیز منظر — فوٹو: سید مہدی بخاری

دریائے غذر کے کنارے کھڑے درخت ماچس کی تیلیوں جیسے بھڑک رہے تھے۔ سفر میں ایک اور شام بِیت رہی تھی۔ جیسے ہی سورج نے آخری ہچکی لی میں وادی پھنڈر میں واقع پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاؤس میں بنے ہیلی پیڈ پر آ گیا۔

 میرے نیچے ساری وادی کھُلی تھی۔ شمال کے سفر کی یہ آخری شام تھی۔ صبح مجھے گھر کو لوٹ جانا تھا۔ میرے وجود میں اتنے رنگ بھر چکے تھے کہ میرا اندرون ایبسٹرکٹ پینٹنگ جیسا ہو چکا تھا۔

اگلی صبح واپسی کے لئے روانگی ہوئی تو میں نے گاڑی کی ٹیپ میں غالب کی غزل لگا دی۔ "پھر کچھ اس دل کو بیقراری ہے" ۔ ڈرائیور نے میری سمت دیکھا اور بولا "صاحب اب بھی بیقراری ہے ؟" ۔ میں جواب میں مسکرا دیا ۔ سورج پہاڑ کی اوٹ سے اُبھرا ۔ وادی آدھی دھوپ میں تھی آدھی سائے میں۔ سڑک سنسان تھی ۔ گھر قریب آ رہا تھا۔ اور پھر میں نے سیٹ سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کر لیں۔

"سچائیاں تو اَن گنت ہیں۔ پت جھڑ کے پتوں کے سمان۔سب سچائیاں بھلا کس کو ملتی ہیں؟ یہ مٹھی بھر سچائیاں ہی تو اِس جیون کا سبھاؤ ہیں"۔






سید مہدی بخاری سے ان کے آفیشل فیس بک پیج پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔