بلاگ
Time 06 جنوری ، 2018

چورن

اگر ہمیں امریکا کا دوست کہلانا ہے تو معاشی وعسکری طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا پڑے گا، وگرنہ ہمیں امریکا کی ڈانٹ ڈپٹ اور طعن و تشنیع کا 'چورن' کھاتے رہنا ہوگا—۔

پنجاب فوڈ اتھارٹی نے چورن کو مضرِصحت قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کردی ہے۔ محکمہ ہذا کی کارکردگی کو کیا عنوان دیا جائے کہ جس نے آزادی کے 70سال بعد غریب بچوں کے ’’پسندیدہ زہر‘‘ پر پابندی عائد کردی ہے۔

ڈاکٹر طیب سرور میر کا کہنا ہے کہ چورن کھانے سے بچوں کو انتڑیوں کی بیماریوں سمیت کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔مجھے دھندلا دھندلا یاد ہے کہ بہت چھوٹی عمر میں، میں بھی چورن کھایا کرتا تھا۔

بابا چورن کا ناک نقشہ مجھے آج بھی یاد ہے۔میرے شہر گجرانوالہ پونڈہ والہ چوک میں ایک بوڑھا شخص سرکنڈوں کے اسٹینڈ پر رنگ برنگے لکڑی کے چھابے کے ساتھ نمودار ہوا کرتا۔اس کی رنگت نہ صرف کالی تھی بلکہ یوں لگتا تھا جیسے اسے جلتے تندور سے نکالا گیا ہو۔ بابا چورن بارہ عدد چھوٹی ہانڈیوں سے مختلف مسالے شامل کرکے چورن کی پڑیا تیار کرتا اور اپنے پالتو طوطے کی چونچ میں تھما دیتا۔ میاں مٹھو یہ پڑیا گاہک کو دیتے ہوئے کہتا، ’’چورن حاضر ہے‘‘۔ میاں مٹھو سے چورن کھانا ہمارے لیے ڈزنی لینڈ کی سیر کرنے جیسی ایکٹیوٹی سے کم نہ تھا۔

وطن عزیز میں پانی، دودھ، گھی، سبزیاں، پھل یہاں تک جان بچانے والی ادویات (Life saving drugs) کے خالص ہونے کی ضمانت نہیں ہوتی۔لہذا ایسی صورت حال میں مضر صحت چورن پر پابندی عائد ہونا باعث اطمینان و افتخار ہے۔

ایک طویل عرصہ سے میں بھی ’’نیم کلاسیکی بزرگی‘‘ (نصف بزرگی ) کی کٹیگری میں شمار کیا جا رہا ہوں، لہذا چورن، املی اور منہ سلونا کرنے والی ایسی کھٹی میٹھی چیزیں میری ترجیح نہیں رہیں۔ بچوں کی صحت کو چورن سے خطرہ تھا جس پر پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اس پر پابندی عائد کرکے انہیں محفوظ کرنے کی کو شش کی ہے۔ 

دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ کی ڈرون جیسی دھمکیوں نے 70سالہ پاک-امریکا دوستی کے رُخِ روشن کو بری طرح جھلسا دیا ہے۔

یکم مئی 1947 یعنی آزادی سے لگ بھگ ساڑھے تین ماہ پہلے امریکی سفارت کاروں، Raymond A Hare اور Thomas E Weilنے قائداعظم سے ملاقات کی، جس میں متوقع پاکستان اور دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں سپر پاور کے طور پر ابھر کر سامنے آنے والے امریکا کے مابین تعلقات اور علاقائی ترجیحات طے کرلی گئی تھیں۔ 14 اگست 1947کو آزادی کے دن قائداعظم دہلی سے کراچی روانہ ہوئے تو بھارت میں امریکی سفیر ان کو الوداع کرنے ایئرپورٹ پر موجود تھا۔

امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نے 15 اگست کو اپنے تہنیتی پیغام میں کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ Dominion (پاکستان) امریکا کی مضبوط دوستی اور خیر سگالی کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرے گا۔امریکی حکومت اور عوام آپ کے ملک کے ساتھ طویل، قریبی اور خوشگوار مراسم کی توقع رکھتے ہیں۔47 سے لے کر 2017 تک پاکستان اور امریکا کے تعلقات مفاہمت (Engagement) اور کشیدگی (Estrangement) جیسی صورت حال سے دوچار رہے۔

پہلے دس سال پاک-امریکا تعلقات میں بے رخی چھائی رہی، فیلڈ مارشل ایوب کے دور میں تعلقات خوشگوار رہے۔نکسن اور جنرل یحییٰ کے مثالی تعلقات رہے ۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تعلقات دوبارہ خراب ہوئے۔جنرل ضیا الحق کا دور ہنی مون پیریڈ تھا۔بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار میں بھی امریکا کبھی خوش اور کبھی ناراض ہوتا رہا۔جنرل مشرف اقتدار میں آئے تو پاک-امریکا تعلقات ایک بار پھر ہنی مون کا روپ اختیار کرگئے۔

غور کیا جائے تو امریکا بہادر پاکستان سے فوجی ادوار میں خوش اور جمہوری حکومتوں سے ناراض رہا ہے۔اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ دنیا میں سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کے سرخیل کا رویہ ہم سے دوغلا ہے۔کیا ہم تجزیہ کرپائے ہیں کہ امریکا بھارت میں جمہوریت اور پاکستان میں آمریت کو ’’اسپانسر‘‘کیوں کرتا رہا؟ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے تو امریکہ کو ’’یار مار‘‘ کہہ دیا ہے۔انگریزی میں یار مار کا مطلب بروٹس سے لیا جاتا ہے، لیکن اردو میں ایسے دوست کے بارے میں غالب نے کہا ہے کہ

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟

’’یارمار‘‘، ہدایت کار ایم جے رانا کی کامیاب فلم تھی، جس کی اسٹار کاسٹ میں اداکار حبیب، علاؤ الدین، الیاس کشمیری، نیلو، منور ظریف، رنگیلا، زلفی اور بڑھکوں کا بادشاہ مظہر شاہ شامل تھے۔

مظہر شاہ ایسے ولن تھے جن کی بڑھک ان کی اداکاری سے بڑھ کر تھی۔ان کی لگائی بڑھکیں نصف صدی گزرنے کے باوجود آج بھی ہماری سیاست اور معاشرت میں سنائی دیتی ہیں، مثلاً: 'اوئے میں ٹبر کھاجاواں تے ڈکار نہ ماراں' (ارے میں خاندان کھاجاؤں اور ڈکار نہ لوں)، اسی طرح ایک اور بڑھک مقبول ہوئی تھی، 'اوئے میں اڈی مار کے تے دھرتی ہلادئیاں' (ارے میں ایڑی ماروں اور دھرتی ہلادوں) وغیرہ۔

بڑھکیں ہمارا قومی رویہ ہے۔ ہمارے قائدین جلسے، جلوسوں، ریلیوں اور دھرنوں میں بڑھکوں سے اجتماع کو گرماتے ہیں۔اوئے توئے کے ساتھ ساتھ اب تو گالیوں کی صورت میں ہلکی پھلکی موسیقی کا مظاہرہ بھی کرنے لگے ہیں۔ فیض آباد دھرنے میں کیے گئے ’’فن کے مظاہرے‘‘ کے ویڈیو کلپس جس تعداد میں دنیا میں شیئرز کیے گئے ہیں، اس سے برٹنی اسپیر، مورائے کیری اور واکا واکا فیم شکیرا کہیں پیچھے رہ گئی ہیں۔

ٹرمپ نے پاکستان کو بے وفا اور دھوکے باز کہتے ہوئے الزام لگایا کہ ہم نے دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کر رکھے ہیں۔مزید یہ کہ 15 سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے امریکا نے ہمیں 33 ارب ڈالر فراہم کیے، جس میں کرپشن ہوئی۔

ٹرمپ کے مشیر ساجد تارڑ نے پاکستانی چینلز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مارکیٹنگ کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر کے ساجد تارڑ نامی مشیر کے صوتی اثرات سے لگتا ہے کہ ری پبلکن صدر کا پورا نام چوہدری ٹرمپ تارڑ ہونا چاہیے۔

دراصل امریکی صدر جدید دنیا کا چوہدری قرار پاچکا ہے۔ سوویت یونین کی عسکری اور معاشی تجہیز وتکفین کے بعد امریکا دنیا کا وڈا چوہدری تسلیم کرلیا گیا اور امریکا کو دنیا کا وڈا چوہدری بنانے میں پاکستان کا وہی کردار تھا جو ’’دیوداس‘‘ میں چنی بابو کا فلم کے ہیرو یعنی دیوداس اور چندر مکھی کی ناکام محبت میں تھا۔

دیوداس میں چنی بابو کا کردار جیکی شیروف جبکہ دیگر کردار شاہ رخ خان، مادھوری اور ایشوریا رائے نے نبھائے تھے۔دیوداس اپنی بچپن کی محبت پاروتی سے عشق کرتا ہے جبکہ چندر مکھی اپنے محبوب کی بے پروائی کے باوجود اسے ٹوٹ کر چاہتی ہے اور عشق دیوانی کا روپ دھار لیتی ہے۔

 امریکہ، بھارت اور پاکستان کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی لگتی ہے۔ چندر مکھی پر فلمایا وہ گیت یاد کیجئے جس میں وہ اپنے محبوب کی آمد پر بے اختیار پکار اٹھتی ہے ، 'ہم پہ یہ کس نے ہرا رنگ ڈالا۔۔خوشی نے ہماری ہمیں مارڈالا۔۔مارڈالا۔۔مارڈالا۔۔'

70 سال پہلے بھی ہمیں امریکا کی ضرورت تھی اور آج بھی ہے۔ریکارڈ گواہ ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ غلام محمد (جو بعدازاں گورنر جنرل بنے)نے قیام پاکستان کے صرف دو ہفتے بعد امریکی سفیر چارلس لیوئس سے براہ راست امداد کی درخواست کی تھی۔ امریکا میں پاکستان کے پہلے پاکستانی سفیر ایم اے ایچ اصفہانی نے معاشی اور دفاعی اخراجات کے لیے 2 بلین ڈالر امداد کی درخواست کی تھی جسے امریکا نے مسترد کرکے صرف 10 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی تھی۔ امداد دینے اور لینے والے ممالک میں دوستی کیسی، دونوں دوست نہیں آقا اور غلام ہوتے ہیں۔

جس دن ہم امریکا اور اپنے رشتے میں ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کی ضد کو ختم کردیں گے ہم سپر پاور کو ’’یار مار‘‘ کہنا چھوڑ دیں گے۔ اگر ہمیں امریکا کا دوست کہلانے کا شوق ہے تو پھر اس ملک کو معاشی اور عسکری طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا پڑے گا، وگرنہ ہمیں امریکا کی ڈانٹ ڈپٹ اور طعن و تشنیع کا ’’چورن‘‘ کھاتے رہنا ہوگا۔


یہ تحریر 6 جنوری 2018 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔