اسلام آباد: اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں دو تہائی سے زائد گھرانے آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں اور ہر سال تقریباً 53 ہزار پاکستانی بچے آلودہ پانی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
یونیسیف کے مطابق جراثیم آلود پانی پینے کی وجہ سے ہر سال تقریباً 53 ہزار بچے ڈائریا کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ ٹائیفائڈ، ہیضہ، پیچش اور ہیپاٹائٹس کے کیسز تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ میں اقوام متحدہ اور پاکستانی حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 30 سے 40 فیصد اموات آلودہ پانی پینے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
ورلڈ بینک نے 2012 میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ آلودہ پانی کی وجہ سے پاکستان کو معاشی نقصان بھی ہورہا ہے اور سالانہ 5.7 ارب ڈالر یا (مجموعی قومی پیداوار کا 4 فیصد) آلودہ پانی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کے علاج پر خرچ ہورہے ہیں۔
اسلام آباد میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے وائس چانسلر جاوید اکرم نے بھی پانی کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔
پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں بھی فراہمی آب کی صورتحال انتہائی ناقص ہے۔ دریائے راوی جو شہر کے تقریباً ایک کروڑ سے زائد شہریوں کو پانی فراہم کرتا ہے اسے مقامی فیکٹریاں آلودہ کررہی ہیں۔
دریائے راوی میں پائی جانے والی مچھلیاں مقامی افراد بطور غذا استعمال کرتے ہیں لیکن ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے پروجیکٹ آفیسر سہیل علی نقوی کہتے ہیں کہ بعض رپورٹس اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ دریائے راوی کی مچھلیوں کی ہڈیوں میں دھاتوں کی بھاری آمیزش پائی گئی ہے۔
ماہر ماحولیات احمد رافع عالم کہتے ہیں کہ دریائے راوی کا پانی ملحقہ علاقوں کی فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن دریا کا پانی خود آلودہ ہے اور اس میں مختلف جراثیم موجود ہوتے ہیں۔
قابل تسلسل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے محقق عمران خالد کہتے ہیں کہ پاکستان میں فراہمی آب کے انفرااسٹرکچر کی عدم موجودگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، یہاں ماحولیاتی تبدیلی سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں ہوتی، جن لوگوں کی قوت خرید ہے وہ پانی کی بوتلیں خرید لیتے ہیں لیکن جو لوگ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے وہ کیا کریں؟
میگا سٹی کراچی جس کی آبادی تقریباً 2 کروڑ تک ہوسکتی ہے، یہاں مقامی سطح پر فراہمی آب کا مؤثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلاء کو ٹینکر مافیا نے پُر کیا ہے۔
پاکستان میں پانی میں موجود آلودگی ہی واحد مسئلہ نہیں بلکہ ایک اور بڑا مسئلہ سر اٹھارہا ہے اور وہ ہے پانی کی قلت۔
1960 سے اب تک پاکستان کی آبادی میں پانچ گنا سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے اور سرکاری تخمینوں کے مطابق 2025 تک پاکستان میں پانی کا بحران سنگین ہوجائے گا اور پاکستان میں ایک شخص کے لیے 500 کیوبک میٹرز سے بھی کم پانی دستیاب ہوگا۔
پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے عہدے دار بشیر احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں بلند و بالا گلیشیئرز موجود ہیں اور مون سون بھی ہوتا ہے لیکن یہاں پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے صرف تین بڑے ’اسٹوریج بیسن‘ موجود ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں کینیڈا اور جنوبی افریقا میں ان کی تعداد ہزار سے زائد ہے۔
انہوں نے کہا کہ پانی کا بحران حل کرنے کے لیے جو سیاسی وژن چاہیے وہ موجود نہیں لہٰذا اگر پانی زیادہ مقدار میں موجود بھی ہو تو ذخیرہ کرنے کی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ضائع ہوجاتا ہے۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کے چیئرمین محمد اشرف کا کہنا ہے کہ بحران شدت اختیار کررہا ہے، تمام شہری علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح نیچے جارہی ہے جہاں قدرتی طور پر آرسینک کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔
اگست میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تقریباً 5 سے 6 کروڑ پاکستانیوں کے جسم میں آہستہ آہستہ زہر سرائیت کررہا ہے کیوں کہ وہ آرسینک ملا پانی استعمال کررہے ہیں۔
محمد اشرف کے مطابق دریاؤں کو آلودہ کرنا معمول بن چکا ہے، اسلام آباد میں سڑکوں کو صاف کیا جاتا ہے، گاڑیوں کو روز دھویا جاتا ہے اور باغوں پر بے دریغ پانی خرچ کیا جاتا ہے، ہم اپنے گھروں کو تو اپنا سمجھتے ہیں لیکن دریاؤں کو اپنا نہیں سمجتے، یہی وجہ ہے کہ ہم اپنا کچرا اس میں ڈال دیتے ہیں۔