بلاگ
Time 16 جنوری ، 2018

آخری دھرنا، جمہوریت کا اللہ حافظ!

 سیاسی قیادت بالغ نظری کاثبوت دیتےہوئےاس ملک پر بھی رحم کرنے کا سوچے،وطن عزیز کو ایک اور دھرنےکی نہیں مخلص قیادت کی ضرورت ہے—۔فائل فوٹو/جیو نیوز

موجودہ جمہوری نظام کو آخری دھکا دینے کے لیے اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں متحد ہوچکی ہیں، ان میں وہ جماعتیں سرفہرست ہیں جو دہائیوں سے سینے پر جمہوریت کا تمغہ سجائے جمہوری نظام کے تحفظ کی قسمیں تسلسل سے کھاتی رہی ہیں، سب باجماعت ہو کر ایک ایسے درپر سجدہ ریز ہیں جس نے ہمیشہ منتخب حکومتوں کو گرانے کے لیے اپنی ’’شستہ خوش گفتاری‘‘ اور عقیدت مندوں کا سنگدلی سے استعمال کیا ہے۔

باعث حیرت ہے کہ یک جان ہو کر کمربستہ ’’جمہوریت پسند‘‘ یہ بھول رہے ہیں کہ وہ اسی دیوار کو ایک دھکا اور دے رہے ہیں جس کی اوٹ میں خود بیٹھے ہیں۔

 فیض آباد دھرنے سے پہلے سیاسی افق پر تبدیلی کی فضا، اب کالی گھٹا بن چکی ہے اور ’’برسنے‘‘ کا انتظار ہے۔ ہر طرف خدشات، تحفظات اور اندازے چل رہے ہیں، نظام حکومت تلپٹ اور مفلوج ہے، ایسے میں بابا رحمتے بھی اپنے گھر کی پریشانیاں چھوڑ کر دوسروں کے ذمہ کاموں کی نگرانی کے لیے باہر نکل چکے ہیں، کمالِ فن ہے کہ سیاسی اسٹیج کے کردار کسی بھی سانحے کو سنہری موقع سمجھ کر اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے میں بازی لے جانے پر مصر ہیں، پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لیے متحد ہونے کی بجائے دوسروں کے ہاتھ کا کھلونا بننا ترجیح بن چکا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ سال 28 جولائی کو اقتدار سے محروم ہونے والے میاں صاحب کو ابھی تک نکالے جانے کی وجوہ سمجھ نہیں آرہی اور اگر آچکی ہے تو بتانے پر مائل نہیں یا قابل نہیں، بس جلسوں اور تقریبات میں محض اشاروں کنایوں سے ’’نامعلوم افراد‘‘ کو ظالم اور خود کو مظلوم قرار دینے کی مشق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شاید میاں صاحب جانتے ہیں کہ ان کی ’’ریڈلائن‘‘ کیا ہے۔

دوسری جانب ایک اور دھرنے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ اس مرتبہ ’’عالی مرتبت‘‘ اکیلے نہیں بلکہ ان کے لیے درجن بھر جماعتوں کا سامان بھی کر دیا گیا ہے جو نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے پوری قوت سے سپورٹ کررہی ہیں۔

چند روز پہلے پارلیمنٹ کی راہداریوں میں پیپلز پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے میرے سوال پر کہا کہ 'ہاں جناب زرداری صاحب کو مسٹر قادری کے در پر حاضری کے لیے نہیں جانا چاہیے تھا۔ جماعت کی سینئر لیڈر شپ معترض ہے، وہ چل کر زرداری ہاؤس آتا تو زیادہ بہتر ہوتا، لیکن وہ اصرار کر رہے تھے، پیپلزپارٹی ’’کرپشن‘‘، ناانصافی اور دہشت گردی کے خلاف نکل رہی ہے، جمہوری نظام میں بہتری اور کرپٹ و نااہل حکمرانوں کو جیلوں میں ڈالنے کے لیے قادریہ قافلے کا حصہ بن رہی ہے، وغیرہ وغیرہ'، میں نے لب کشائی کی کوشش کی کہ آپ کی جماعت تو ایک صوبے کی سردار اور دوسرے میں حصہ دار ہے تو میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر بولے، ’’بھائی، اللہ خیر کرے گا آپ زیادہ پریشان نہ ہوں‘‘۔

چند دن پہلے جمہوریت سے متعلق ایک مباحثے میں میرے جمہوری نظام پر اعتماد اور جمہوریت کی مضبوطی کے آئیڈیاز پر ایک نامور اور قابل پروفیسر صاحب نے کاری ضرب لگاتے ہوئے کہا کہ 70سال سے جمہوریت کے نام پر تماشہ چل رہا ہے، ڈگڈگی بجانے والے فن کار وہی ہیں صرف اداکار بدلتے رہتے ہیں، عوام تو دہرے عذاب میں ہیں، وردی میں آمر آئے تب مصیبت، انتخابات ہوں تب مصیبت، یہاں جمہوریت کے نام پر آمریت مسلط کی جاتی ہے، گزشتہ دہائی میں دو انتخابات ہوئے لیکن اس ملک کا کیا حال ہوگیا ہے؟کوئی بزنس ہو رہا ہے نہ کوئی سرمایہ کاری، کوئی دکان چل رہی ہے نہ کوئی فیکٹری کارخانہ، غیر ملکی بزنس و سرمایہ کار گروپس آنے کا وعدہ کر کے یہاں واپس نہیں آتے۔

ایک طرف امریکی دھمکیوں نے مسلسل سر چکرایا ہوا ہے تو اس کے بغل بچے بھارت کی گیدڑ بھبکیاں کانوں میں ہر وقت ارتعاش پیدا کرتی رہتی ہیں، امریکی فوجی امداد بند ہونے کے بعد عالمی پابندیوں کے خدشات بھی منڈلا رہے ہیں، اب تو سیاسی و امن وامان کی بے یقین صورت حال سے گیم چینجر منصوبے 'سی پیک' کے آگے بڑھانے پر سوالات اٹھنے لگے ہیں، حالات و واقعات خدشات کی آگ میں جل رہے ہیں کوئی نہیں جانتا کہ کل کہاں سے دھواں اٹھنے لگے۔ میں نے کہا، شاید ’’دشمن‘‘ کی نظر لگ گئی ہے، خونخوار نظروں سے دیکھا اور بڑبڑائے ہم اپنے دشمن خود ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ نازک دور کا کہہ کر وطن عزیز کے مسائل کم کرنے کی بجائے بڑھائے گئے۔ عوام پوچھتے ہیں کہ خود کو اچھے وقتوں میں خوشحال کرنے والے بھی کبھی اس ملک کے لیے کچھ اچھا سوچیں گے؟ نظام کی بہتری کا کوئی انتظام کب کریں گے؟ سیاسی قیادت کٹھ پتلی بننے کی بجائے اس تماشے کو ختم کرنے کا اہتمام کب کرے گی؟ دشمن کی چال کی کامیابی میں ایندھن بننے کی بجائے فائر فائٹر کا کردار کب ادا کرے گی؟ دنیا کے سامنے اپنا چہرہ مزید مسخ کرنے کی بجائے اس کی ری کنسٹریشن اور سرجری کب شروع کریں گے؟ 

شاید ہماری سیاسی قیادت کے پاس اس سے کہیں زیادہ اہم اور سنجیدہ معاملات ہیں، اب کی بار ایک اور قیمتی و سنہری موقع ان کے ہاتھ آگیا ہے، سر اٹھانے کی بجائے سرنگوں ہو کر خود کو تابعدار اور فرمانبردار ثابت کرنے کا؟ بحران پیدا کرکے خود کو آئندہ اقتدار میں آنے کا اہل قرار دینے کا؟ ’’صادق وامین‘‘ بن کر امانتیں لوٹنے اور لٹانے کا؟ دوسروں کو بے وفا اور خود کو وفادار ثابت کرنے کا۔

پوچھا جا رہا ہے کہ صورت حال کو اس نہج پر پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟ میری نظر میں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اس کے ذمہ دار ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد میاں صاحب کے پاس اقتدار محدود تھا لیکن کچھ کر گزرنے کے مواقع کہیں زیادہ تھے اور ملک وقوم کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے کافی وقت تھا۔

ان کے پاس وسائل کم تھے لیکن اپنے اثاثوں کو واپس لا کر مثال قائم کرنے اور دوسروں کو ترغیب دینے کا پیغام دے سکتے تھے، بڑے کی بجائے اسمال انڈسٹری یونٹس لگانے کی سہولت حاصل تھی اور ان کا تحفظ کیا جاسکتا تھا، صحت عامہ کے مسائل کے حل کے لیے ہر گاؤں اور شہر میں ڈسپنسری اور اسپتال بنائے جاسکتے تھے،علم و شعور کے لیے ہر قصبے اور ہر چھوٹے بڑے علاقے میں اسکول، کالج اور یونیورسٹی بنائی جاسکتی تھی، نصاب کو جدید بنایا جاسکتا تھا، پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے لیے ہر علاقے میں چھوٹے ڈیم اور ملک کو بڑے ڈیم کا تحفہ دیا جاسکتا تھا، خود انحصاری و خوداحتسابی کا عمل اپنے سے شروع کیا جاسکتا تھا، اداروں سے الجھنے یا مقابلے کی بجائے بنیادی مسائل حل کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا جاسکتا تھا۔

 جب پہلی مرتبہ سازش کی بو آئی تھی تو اس کو سات پردوں میں چھپانے اور خوف زدہ ہونے کی بجائے عوام اور پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جاسکتا تھا، پہلے دھرنے کی تیاریوں کی خفیہ اطلاع ملی تھی تو اس کو عام کیا جا سکتا تھا، میاں صاحب وزیراعظم تھے، دھرنے کے ’’مبینہ‘‘ کرداروں کو ہٹانے کی بجائے اپنے وزیر کو گھر نہ بھیجتے، پاناما لیکس پرعدالت کی طرف دیکھنے کی بجائے پارلیمان میں خود کو پیش کرتے اور اوپن تحقیقات کراتے، ڈان لیکس پر سچے تھے تو اپنے وزراء کی قربانی کی بجائے ’’سچ‘‘ کا بول بالا کرتے، خود پر لگے کرپشن کے الزامات کو دھونے کے لیے غیرجانبدار شفاف انکوائری کا خود بندوبست کرتے، واٹس اپ کال کی حقیقت کو ٹھوس ثبوت سے ثابت کرتے، پاناما اور اقامہ میں فرق ظاہر کرتے، دہشت گردی کے خلاف پرخلوص تھے تو واضح سوچ اور ایکشن دنیا کے سامنے رکھتے، ماڈل ٹاؤن سانحے میں بری الذمہ تھے تو نجفی کمیشن کی رپورٹ عام کرتے۔

اگر آپ کو ’’نکال باہر‘‘ کرنے کی کوئی سازش یا منصوبہ تیار ہو رہا تھا تو ان منصوبہ سازوں کا نقاب الٹ دیتے، حلقہ این  اے 120 میں انتخابی عمل سے پہلے آپ کے کارکن اٹھائے جارہے تھے تو بیانات کی بجائے سول ایجنسیز سے تحقیقات کراتے، وفاقی وزرا اور ارکان پر دہشت گردوں سے رابطوں کا آئی بی کے جعلی خط کے ذریعے الزام لگنے پر اعلیٰ سطح کمیشن بناکر حقائق کی تہہ تک پہنچتے، جے آئی ٹی کی تحقیقات اور نیب کیسز کو غلط ثابت کرنے کے لیے اپنے اثاثوں کی تفصیلات خود منظر عام پر لے آتے، بلوچستان حکومت آپ سے دن دیہاڑے چھین لی گئی، اس کی اندرونی کہانی سرعام بتاتے۔

آپ کو آئندہ انتخابات میں اقتدار سے باہر کرنے کا کوئی پلان بن رہا ہے تو بے بسی کے بجائے عوام پر اعتماد کرنے کا وقت ابھی ہے۔ لیکن آپ کو کچھ کرنا تھا نہ آپ نے کیا اور شاید نہ کریں گے کیونکہ آپ کو مناسب وقت کی تلاش ہے، جو کبھی نہیں آئے گا، اب حد تو یہ ہے کہ سچ بولنے کے لیے اپنا منہ کھولنے کی بجائے آپ دوسروں کو خدا سے معافی مانگنے کی تلقین کر رہے ہیں، سبحان اللہ۔

تاریخ کا جائزہ لیں تو پاکستانی عوام کو تو ہمیشہ ہی سادہ لوح سمجھ ان کے حقوق پر ڈاکہ اور قیمتی ووٹوں سے دیا اقتدار چھین لیا جاتا ہے، پھر الزام ’’نامعلوم افراد‘‘ پر لگا دیا جاتا ہے، آج ایک اور دھرنا تیار ہے، شاید آخری دھرنا! سازشی تھیوریاں عام ہیں، طرح طرح کی کہانیاں گھڑی جارہی ہیں، نظام لپیٹنے کی تاریخیں دی جارہی ہیں، عالمی تناظر میں سخت دباؤ میں گھری اسٹیبلشمنٹ پر وضاحتوں کے باوجود سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے الزامات میں کمی نہیں آرہی، کچھ تو ہونے والا ہے!

 لیکن، ملکی بقا اور مفاد کا تقاضا ہے کہ اس سے پہلے کہ جمہوریت سے ہمیشہ کے لیے ہاتھ دھو بیٹھیں، میاں صاحب سمیت پوری سیاسی قیادت بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے اس ملک پر بھی رحم کرنے کا سوچے، کیونکہ وطن عزیز کو ایک اور دھرنے کی نہیں، جمہوری نظام اور اس کی مضبوطی کے لیے مخلص قیادت کی ضرورت ہے۔

یہ تحریر 16 جنوری 2018 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔