پاکستان
Time 19 جنوری ، 2018

پروفیسر حسن ظفر عارف کی ہلاکت، چند نئی باتیں سامنے آ گئیں


متحدہ قومی موومنٹ لندن کے پاکستان میں انچارج پروفیسر حسن ظفر عارف کی لاش 14 جنوری کو کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری کے قریب ریڑھی گوٹھ سے برآمد ہوئی تھی۔

کچھ روز قبل ان کی بیٹی کا بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے والد کی موت طبعی قرار دی تھی جس کے بعد بظاہر تمام افواہوں اور اندیشوں کو دم توڑ دینا چاہیے لیکن تحقیقاتی صحافت کا تقاضا تھا کہ معاملے سے جڑے سوالوں کے جواب تلاش کیے جائیں۔

جیو نیوز کی ٹیم نے معاملے کی تحقیقات کی کوشش کی اور اس دوران سامنے چند نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔

پروفیسر حسن ظفر عارف ک کی لاش جہاں سے برآمد ہوئی اور ان کے دفتر کا فاصلہ تقریبا 15 کلومیٹر اور دورانیہ ایک گھنٹہ ہے۔

ساتھی وکیل عبدالمجید کاروانی کے مطابق اگر پروفیسر حسن ظفر عارف اپنے دفتر سے ساڑھے 6 بجے نکلے، تو انہیں 8 بجے تک وہاں پہنچ جانا چاہیے تھا۔

دوپہر 3 بجے کیے گئے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں درج ہے کہ پوسٹ مارٹم اور موت کے درمیان کا دورانیہ 10 سے 16 گھنٹے ہے۔

اس حساب سے پروفیسر حسن ظفر کی موت رات 11 سے صبح 5 بجے کے درمیان ہوئی، سوال یہ ہے کہ ساڑھے 6 بجے سے 11 بجے تک حسن ظفر کہاں تھے اور ان کا سب سے رابطہ کیوں منقطع ہوگیا تھا؟ اور لاش کی اطلاع صبح 10 بجے کیوں ملی؟

پولیس کو لاش کی موجودگی کی اطلاع دینے والے شخص کا نام یونس جت ہے، یہ سوزوکی ڈرائیور ہے، جیو نیوز کے رابطہ کرنے پر اس شخص نے اڈے پر ملنے کا بتایا اور پھر رابطہ منقطع کردیا۔

جس ایمبولینس ڈرائیور نے لاش پولیس اسٹیشن سے اسپتال منتقل کی اس کا کہنا تھا کہ پروفیسر کی گاڑی میں سیگریٹ کے 2 ڈبے کھلے ہوئے تھے،، جبکہ اس میں دوائیں بھی تھیں۔

پروفیسر حسن ظفر کی کار پر جو نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی اس کا محکمہ ایکسائز میں کوئی ریکارڈ نہیں ہے جبکہ اسپتال انتظامیہ نے پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ کو کیمیکل تجزئیے سے مشروط کر رکھا ہے جس کے بعد ہی پروفیسر ظفر عارف کی موت کی اصل وجہ سامنے آسکے گی۔

مزید خبریں :