پیغامِ پاکستان

 صدر پاکستان ممنون حسین نے 16 جنوری کو ایک تقریب میں ’’پیغامِ پاکستان‘‘ جاری کیا—۔فائل فوٹو/ بشکریہ ریڈیو پاکستان

ممنون حسین ایک شریف آدمی ہیں، کراچی کی ایک مڈل کلاس فیملی سے آپ کا تعلق ہے، دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں، کسی بھتہ خور جماعت سے آپ کا کوئی واسطہ نہیں، کسی آمر کے دست و بازو نہیں بنے، سادہ طبیعت ہیں، بھلے آدمی ہیں، مرنجاں مرنج انسان ہیں، خدا نے انہیں صدر پاکستان کے عہدے تک پہنچایا ہے، بطور قوم ہمیں اس بات پر فخر کرنا چاہئے کہ ایسا نفیس انسان ہمارے ملک کا صدر ہے۔

گزشتہ دنوں صدر پاکستان نے ایک تقریب سے خطاب کیا جس میں ’’پیغامِ پاکستان‘‘ جاری کیا گیا، یہ ایک کتابچہ ہے جو ادارہ تحقیقات اسلامی نے مرتب کیا ہے۔ اسے آپ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ریاست پاکستان کا بیانیہ کہہ سکتے ہیں۔اس بیانیے میں سات اہم باتیں کہی گئی ہیں:

 پہلی، پاکستان کے 95 فیصد قوانین میں قران و سنت سے متصادم کچھ نہیں، اسلامی نظریاتی کونسل یہ بات مکمل تحقیق کے بعد اپنی رپورٹ میں دے چکی ہے لہٰذا پاکستانی قوانین کو غیر اسلامی قرار دینا گمراہی کے سوا کچھ نہیں اور اس بنا پر ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا کر جنگ کرنا تو صریحاً حرام ہے۔

دوسری، ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے انتہا پسند گروہ خوارج ہیں جو معصوم مسلمانوں کو معمولی غلطی پر کافر قرار دے کر قتل کر ڈالتے تھے اور جن کی سرکوبی حضرت علی ؓ نے کی تھی، یہی لوگ آج ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف جنگ کر رہے ہیں اور جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں، ان کی سزا قرآن میں بتا دی گئی ہے۔

تیسری، علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی مسلمان حکمران ریاست میں شریعت نافذ کرنے کے حوالے سے سستی سے کام لے یا غفلت برتے اُس صورت میں بھی اُس کے خلاف مسلح بغاوت نہیں کی جا سکتی۔

چوتھی، خودکش حملوں کا اسلامی تاریخ میں کوئی وجود نہیں، ان حملوں کے نتیجے میں بے گناہ مسلمان مارے جاتے ہیں، یہ حملے کرنے والے سنگین جرم کے مرتکب ہوتے ہیں، ایسے جرم پر حرابہ کی سزا لاگو ہوتی ہے۔

پانچویں، جہاد کا اختیار صرف ریاست کا ہے، علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ کی اجازت صرف حکومت وقت دے سکتی ہے اور وہ بھی اُس صورت میں جب اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہو لہٰذا دہشت گردوں کی خودساختہ جنگ اسلامی قانون کی رُو سے بالکل ناجائز ہے۔

چھٹی، امر بالمعروف کے عنوان سے قانون کو ہاتھ میں لے کر کسی دوسرے مسلمان کو کافر قرار دینا یا برائی روکنے کی آڑ میں کسی دوسرے کی آزادی سلب کرنے کا اختیار کسی فرد کو نہیں، قانون کے مطابق طاقت کا استعمال صرف ریاستی اداروں کو ہے۔

ساتویں، اسلام کے نام پر آئین کو پرے پھینک کر اور جغرافیائی سرحدوں کو نظر انداز کرکے کسی دوسرے ملک میں لشکر کشی کا حصہ بننا بھی خلافِ اسلام ہے اور عہد شکنی کے زمرے میں آتا ہے، پاکستانی شہری پر لازم ہے کہ وہ دستور میں کئے گئے عمرانی معاہدے کو ترجیح دیں اور کسی بیرون ملک گروہ کی مدد کے نام پر اس میثاق کی خلاف ورزی نہ کریں کیونکہ ایسا کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوگا۔

پیغامِ پاکستان میں بیان کی گئی ان باتوں کی سند قرآن و سنت سے دی گئی ہے، قرآنی آیات اور احادیث کے حوالوں سے ان نکات کی تشریح کی گئی ہے اور دہشت گردی کے بیانیے کو رد کیا گیا ہے، بظاہر اس حوالے سے جتنے ممکنہ سوالات تھے انہیں ایک فتویٰ کی شکل میں پوچھ کر تمام مکاتب فکر کے 1829علمائے کرام کی مہرِ تصدیق بھی ثبت کر دی گئی ہے جن میں جامعہ بنوریہ کراچی، جامعۃ المنتظر لاہور، جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ اکوڑہ خٹک شامل ہیں۔

یہ ایک قابلِ تحسین پیش رفت ہے، اس کی تعریف کی جانی چاہئے، دیر سے ہی سہی مگر شکر ہے کہ ہمیں اپنا بیانیہ دینے کا خیال آیا۔ مگر اس بیانیے میں کچھ کمزوریاں ہیں۔ فتویٰ کے ضمن میں پوچھے گئے سوالات میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ دہشت گرد اس ملک میں نفاذ شریعت چاہتے تھے (ہیں) اور ریاست کے خلاف اُن کی مسلح جنگ کی یہی بنیادی وجہ تھی۔

ایسا نہیں تھا۔ شریعت نافذ کرنے کا مطالبہ تو یہ دو چار سال پہلے کی بات ہے جب طالبان سے مذاکرات کا غلغلہ اٹھا تھا، اُس سے پہلے جو ملک میں خودکش حملے اور دھماکے ہو رہے تھے کیا اُن کی ذمہ داری قبول کرنے والوں نے کبھی کہا تھا کہ ہم نے شریعت کے نفاذ کے لئے مون مارکیٹ، مینا بازار یا داتا دربار پر حملہ کیا؟ ہمارے لئے یہ سمجھنا بہت مشکل تھا کہ کیسے کوئی مسلمان کسی دربار پر حملہ کر کے معصوم لوگوں کو قتل کر سکتا ہے، کیسے کوئی کلمہ گو خدا کے آگے سجدہ ریز نمازیوں پر گولیاں برسا سکتا ہے، معصوم بچوں کے لئے کھلونا بم بنا کر ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بھلا کیا وجہ ہو سکتی ہے، اپنی مسلمان فوج اور پولیس پر حملوں کا کیا جواز ہو سکتا ہے؟

اسی لئے ہم کئی برس تک لاشیں اٹھاتے رہے اور اس مغالطے میں رہے کہ کوئی مسلمان یہ نہیں کر سکتا، حالانکہ یہ سب کرنے والے الٹا ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے تھے۔ دراصل ہم دہشت گردی کے اُس بیانئے کو ہی نہیں سمجھ سکے جس کی رُو سے پاکستان کے عام شہری چاہے وہ بچے ہوں، عورتیں یا بے گناہ مرد، دہشت گردوں کے نزدیک مسلمان نہیں رہے تھے۔ کیوں؟ وجہ اس کی اِن سوالات کے جوابات میں پوشیدہ ہے۔

کیا کسی اسلامی ملک کے بظاہر مسلمان نظر آنے والے حکمران جو غیر مسلم طاقتوں کے آلہ کار بن جائیں، مسلمان مانے جائیں گے؟ ایسی مملکت کے شہری اگر اپنے اِن حکمرانوں کے خلاف جہاد نہیں کریں گے تو کیا ایسے شہریوں کو مسلمان مانا جائے گا؟ اگر کسی مسلم ملک پر کوئی کافر ملک فوج کشی کرکے قبضہ کر لے تو کیا ایسے کافر ملک کے خلاف جہاد کرنا فرض نہیں؟ اور ایسی صورت میں اگر ہمسایہ مسلم ملک، کافر ملک کی فوج کا اتحادی بن جائے تو کیا بظاہر مسلم نظر آنے والی ریاست کے خلاف جہاد درست نہیں ہوگا؟ اسلامی تصور ریاست کے برخلاف جدید لبرل جمہوری اصولوں پر استوار ریاست کیا مسلم ریاست کہلائے گی اور کیا ایسی ریاست میں بسنے والے آزاد خیال اور سیکولر لوگ مسلمان مانے جائیں گے؟

ان تمام سوالات کو 9/11کے بعد امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے افغانستان پر حملے کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو ساری بات شیشے کی طرح صاف ہو جائے گی۔ پیغامِ پاکستان میں لکھا گیا بیانیہ ان سوالات کا مؤثر، براہ راست دوٹوک جواب نہیں دیتا، مجھے نہیں معلوم کہ ادارہ تحقیقات اسلامی کے لئے یہ ممکن تھا یا نہیں مگر ان سوالات کے جوابات کے بغیر بات نہیں بنتی۔

یہ اور اس نوع کے بیسیوں سوالات ہی دراصل اُس برین واشنگ کے کام آتے ہیں جس کے تحت معصوم انسانوں کا خون بہانے والا یہ سمجھتا ہے کہ وہ نیک مقصد کے حصول کے لئے جان قربان کر رہا ہے جبکہ مرنے والے سب واجب القتل ہیں۔ 

پیغامِ پاکستان درست سمت میں پہلا قدم ہے، ہمیں اس سے دو قدم آگے جانے کی ضرورت ہے، اس دستاویز میں دی گئی سفارشات کو اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے پارلیمان کو بھیجنا چاہئے جو اس کو آئین کا حصہ بنائے اور پھر اس پر عمل کرنے کی غرض سے اسکول، کالجوں، مدرسوں اور جامعات کے نصاب میں تبدیلیاں بھی کی جائیں۔ ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑیں گی۔

کالم کا ماتم:کوئٹہ میں دو ماں بیٹی پولیو ورکرز کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا، کراچی میں وزیرستان کے خوبصورت ماڈل نقیب اللہ کو پولیس مقابلے میں مار دیا گیا، ایک اور نوجوان کو کراچی پولیس نے ڈاکو کہہ کر پار کر دیا۔ دل دہلا دینے والے یہ واقعات تین چار دنوں کے اندر اندر ہوئے۔ بقول جون ایلیا زندگی میں خوش رہنے کے لئے بہت زیادہ ہمت بلکہ بہت زیادہ بے حسی چاہئے۔


یہ تحریر 24 جنوری 2018 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔