’مجھے اپنی طرف اٹھتی لوگوں کی انگلیاں نظر آتی ہیں۔وہ کہتے ہیں، یہ ہے وہ لڑکا۔۔۔۔ معلوم ہے اس کے ساتھ کیا ہوا تھا؟‘
یہ شکوہ قصور کے نواحی حسین خان والا گاؤں میں ایک چھوٹے سے گھر میں بیٹھے ولید نے جیو ڈاٹ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اگر ممکن ہوتا، تو محمد ولید کالج چھوڑدیتا۔ اس طرح کم از کم ہر روز کلاس میں اس کا دل تو نہ ڈوبتا۔ اسے ساتھی طلبہ کے طعنے اور اساتذہ کی پراسرار سرگوشیاں تو نہ سننے کو ملتیں۔ کم از کم کالج چھوڑ کر وہ کسی ایسی پرسکون گمنامی میں جا سکتا تھا جہاں نہ تو کوئی اس کا نام جانتا اور نہ ہی اس کی دردناک کہانی ۔
ولید کی طرح اس گاؤں کے سینکڑوں بچے اپنے ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہے ہیں انہی میں عید محمد کا بیٹا بھی شامل ہے جو واقعے کے بعد سے گاؤں چھوڑ کر لاہور منتقل ہوگیا۔ اس واقعے نے اس کی زندگی تباہ کردی۔
جب ولید نے پہلی دفعہ قصور ٹیکنیکل کالج میں داخلہ لینے کی کوشش کی تو انتظامیہ نے صاف انکار کر دیا جس کے بعد گاؤں والے عید محمد کے ساتھ کالج کے پرنسپل سے ملنے گیا۔
عید محمد نے بتایا کہ ’کالج والوں کومنانا آسان نہیں تھا۔ لیکن ولید کا کالج جانا، نہ صرف خود اس کے لیے بلکہ ہم سب کے لیے بھی بہت ضروری تھا۔‘
عید محمد گاؤں حسین خان والا میں الیکٹریشن کا کام کرتے ہیں۔ ان کا اپنا بیٹا بھی اس گاؤں کو چھوڑ لاہور چلا گیا ہے۔ آخری بار وہ اپنے والدین سے بقرعید پر ملنے آیا تھا اور فجر کی نماز کے بعد خاموشی سے واپس چلا گیا تھا۔
قصور کے تقریباً متعدد بچے بھی عید محمد کے بیٹے کی طرح یا تو گاؤں چھوڑ چکے ہیں یا اب کسی کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ان کی زندگی اب ایک قیدی کی زندگی بن چکی ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا یہ ہولناک سلسلہ 2008 سے جاری ہے۔
قصور کے چھوٹے سے گاؤں حسین میں ہونے والی درندگی دنیا کے سامنے 2015 میں عیاں ہوئی اور معصوم بچوں کی زندگیوں کی تباہی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
ان واقعات کی تفصیلات دل دہلا دینے والی ہیں جب کہ حکومتی سطح پر اس گھناؤنے کاروبار پر مجرمانہ خاموشی بھی حیران کن ہیں ۔6 سے10سال کی عمر کے سیکڑوں بچوں کو نہ صرف جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان کی ویڈیوز بھی بنائی گئیں جن کے ذریعے زیادتی کرنے والے 17 مردوں نے بچوں کو بلیک میل کرکے ناصرف پیسے کمائے بلکہ اور انہیں کہیں کا نا چھوڑا۔
2008 میں ولید کی عمر دس سال تھی۔ اسکول کے بعد اس نے ایک شخص سے گھر تک کی لفٹ مانگی۔ لیکن وہ شخص ولید کو ایک خالی حویلی لے گیا۔ وہاں تین مرد انتظار کر ر ہے تھے جن میں سے ایک نے ولید کو پستول دکھا کر ڈرایا اور پھر تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس کے بعد ان افراد نے ساتھ جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا شروع کیا۔
ان میں سے ایک شخص ولید کے ساتھ جنسی زیادتی کر رہا تھا تو دوسرا اس کی فلم بنا رہا تھا۔
ولید نے جیو ویب کو بتایا کہ ’مجھے مسکرانے کو کہتے تھے، اور اگر میں نہ مسکراتا تو کیمرہ روک کر مجھے مارتے۔‘
2008 سے 2015 تک ولید کو دس مرتبہ جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی ویڈیوز بھی بنائی گئیں ۔ اس کے گھر والے اس کی آزمائش سے بے خبر تھے۔ انہیں اس وقت پتہ چلا جب یکے بعد دیگرے ساری فلمیں گاؤں والوں کے موبائل فون پر آنا شروع ہوئیں۔
یہ گھناؤنا دھندہ جاری رہتا اگر انگریزی روزنامہ ’دی نیشن ‘ اس سے پردہ نا اٹھاتا۔ عوام کا ردعمل دیکھ کر پنجاب حکومت نے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی اور 17 ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ بہت سے وعدے بھی کیے گئے لیکن ایک بھی پورا نہ ہو سکا۔ آج 17 میں سے 10 ملزمان عدالت سے ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔ یہ ملزمان اب متاثرہ افراد کے گھر والوں کو دھمکیاں دے کر مقدمہ واپس لینے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
جب کہ متاثرین کا کہنا ہےکہ پولیس اور مقامی سیاستدانوں کے دباؤ میں آ کر چند بچوں کے لواحقین نے اپنے کیس واپس لے لیے ہیں۔
سات ملزمان ابھی بھی جیل میں ہیں جب کہ صرف دو کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔
اس سانحے کے منظرعام پر آنے کے بعد بھی قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور جنسی تشدد کے واقعات ختم نہیں ہوئے۔ اسلام آباد کی این جی او ’ساحل‘ کے مطابق 2016 میں قصور میں جنسی زیادتی کے 141 واقعات پیش آئے۔ لیکن سیاست اور پاناما لیکس کے شور میں قصور کے ان بے قصور بچوں کی آواز کسی نے نہ سنی ۔
رواں ماہ زینب کو اغواء کے بعد جنسی زیادتی کرکے قتل کر دیا گیا اور قصور ایک مرتبہ پھر شہ سرخیوں میں آ گیا ۔
جنوری کی چار تاریخ کو قصور کی 7 سالہ زینب اپنے گھر کے قریب سے غائب ہو گئی۔ پانچ دن بعد اس کی تشدد زدہ لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔ زیادتی کے بعد اس کو گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا ۔ سوشل میڈیا پر معصوم زینب کی تصویریں آگ کی طرح پھیل گئیں۔
مظاہرین قصور میں نکلے اور اپنے بچوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ سخت دباؤمیں آ کر انتظامیہ نے قاتل کو پکڑنے کے لیے صوبے بھر میں تلاش شروع کردی۔
بلآخر دو ہفتے کے بعد قاتل کا سراغ مل گیا جو کہ زینب کے گھر کے قریب ہی رہتا تھا۔ 24 سالہ ملزم محمد عمران نے تقریباً ایک سال سے بچیوں کو اپنی ہوس اور بے رحمی کا نشانہ بنایا۔ اس کا طریقہ واردات ایک ہی تھا۔ بچی کو غائب کرتا، زیادتی کرتا، پھر گلہ دبا کر مار دیتا اور لاش کو کوڑے کے ڈھیر میں یا کسی زیرِ تعمیر عمارت میں پھینک دیتا۔ ان میں سے صرف 6 سالہ کائنات بتول زندہ حالت میں پائی گئی لیکن اس کی حالت نازک ہے اور اس کو کچھ یاد نہیں۔
عمران کا ڈی این اے سب بچیوں کے جسم سے ملے ڈی این اے سے میچ کر گیا۔
تحقیقاتی ٹیم نے جیو ویب کو بتایا کہ عمران کئی کئی دن تک ایک ہی بچی پر نگاہ رکھتا۔ اسے ٹافیاں دیتا، گھماتا پھراتا اور اپنا اعتبار قائم کرتا۔ جس کے بعد وہ اسے۔۔۔
قصور میں ڈی پی او آفس کے پریس افسر ساجد حسین کے مطابق عمران بچیوں کو ٹافیاں دے کر ان سے دوستی کرتا تھا۔ اغواء کرنے کے بعد اسی رات نشہ دے کر ان کو بے ہوش کر دیتا اور زیادتی کے بعد قتل کر دیتا۔ حیرت انگیز طور پر عمران کا یہ گھناؤنا چہرہ محلے والوں سے چھپا رہا۔ عمران کو محلے والے اکثر نعت خوانی کے لیے اپنے گھر میلاد پر بلاتے تھے۔
یہ سب معلومات اہل علاقہ کی مدد سے ہی پتہ چلیں۔ قصور کے ایک رہائشی قیصر شیخ بتاتے ہیں کہ ’’ہمارے تحقیقاتی اداروں کا حال یہ ہے کہ اگر لوگ اپنی دکانوں کے باہر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ نہ دیتے تو پولیس کو نہ پتہ چلتا کہ قاتل کیسا دکھائی دیتا ہے۔ "
ساحل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر منیزے بانو کہتی ہیں کہ پنجاب میں راولپنڈی، فیصل آباد اور مظفر گڑھ میں قصور سے زیادہ کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں لیکن 2015 کے واقعات کے بعد قصور نظروں میں رہتا ہے ۔
منیزے بانو کے مطابق کہیں بھی کیس کی تعداد بڑھے یا گھٹے، بچوں پر تشدد طاقت کا کھیل ہے۔
2015 میں ہونے والے اس گھناؤنے جرم پر قصور میں مجموعی طور پر 35 مقدمے درج کروائے گئے جن میں سے اب تک 8 خاندان اپنے مقدمات واپس لے چکے ہیں۔
متاثرہ خاندانوں کے وکیل، لطیف احمد سرا کا کہنا ہے کہ ان میں کچھ خاندانوں نے پولیس کےدباؤ کی وجہ سے اپنی ایف آئی آر واپس لی ہیں جب کہ دیگر کو کیس واپس لینے کے لیے مسلم لیگ (ن )کے مقامی ایم پی اے ملک سعید نے اپنے ڈیرے پر بلا کر پیسے دیے ۔
حسین خان والا کے ولید کو بھی ایسی ہی ایک کال موصول ہوئی۔ولید نے جیو ویب کو بتایا کہ’’2016 میں مجھے ملک سعید کے ذاتی نمبر سے کال موصول ہوئی۔ اس نے مجھےساڑھے 4لاکھ روپے (450000 )کی پیشکش کی۔ لیکن مجھے اس کی دولت نہیں، انصاف چاہیے۔ اگر انصاف نہ ملا تو میں اپنے آپ کو آگ لگا دوں گا۔‘‘
جب جیو ویب نے ملک سعید سے رابطہ کیا، انہوں نے اس الزام کی سختی سے تردید کر دی اور کہا "اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو سامنے لے کر آئے۔"
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اپنی رپورٹ میں پولیس اور سیاستدانوں کے کردار کو مشکوک قرار دیا اور یہ بھی لکھا کہ متعلقہ پولیس افسران نے تحقیقاتی ٹیم سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
پنجاب حکومت نے 2015 سے اب تک قصور میں6 ڈی پی او تبدیل کیے ہیں۔
حکومتی وزرا ءنے بھی واقعے کی شدت کو دبانے کی کوشش کی۔ صوبائی وزیرقانون رانا ثنا ء اللہ نے اس کو زمین کی ملکیت کا جھگڑا قرار دیا ہے جو کہ 400 ویڈیوز کے سامنے آنے کے بعد حیران کن بیان ہے۔
ایک متاثرہ بچے ابو صفیان کی والدہ زبیدہ بی بی کہتی ہیں کہ ’’زینب کے مرنے کے کچھ ہی گھنٹے بعد رانا ثناء یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ قاتل زینب کا رشتہ دار ہے۔ پتا نہیں ایسی باتیں وہ کیسے کر دیتے ہیں؟‘‘
زبیدہ بی بی کے ساتھ بیٹھے عید محمد کا کہنا تھا کہ "یہ زمین نہیں، ضمیر کا معاملہ تھا۔"
حسین خان والا کے واقعے سے یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ بچوں پر تشدد کے واقعات میں انصاف کم ہی ملتا ہے۔ ان بچوں کے والدین غریب ہیں اور مزدوری کرکے روزی روٹی کماتے ہیں۔ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ لاہور پیشیوں پر جا سکیں۔
2015 میں سب خاندان لاہور گئے اور شہباز شریف سے ملاقات کی۔ وزیراعلی ٰنے بہت سے وعدے کیے جن میں لاہور آنے جانے کے لیے اخراجات، وکیل کی فیس اور سیکیورٹی شامل تھیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ والدین پیسے جمع کرتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے ٹولوں میں لاہور کی عدالت جاتے ہیں۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف صرف وکیلوں کی ٹیم مہیا کردیں تو ہماری مشکل آسان ہوجائے۔
اس صورتحال میں عید محمد کو امید نہیں ہے کہ زینب اور باقی بچیوں کو انصاف ملے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ "اگر ہمیں انصاف نہیں ملا تو زینب کے والدین کو کیسے ملے گا؟۔۔۔اگر میرے بیٹے کو اب بھی انصاف نہیں ملا تو ہم پنجاب اسمبلی کے باہر خود کو آگ لگا لیں گے۔ شاید ایسا کرنے سے ہمیں توجہ مل جائے۔"
—نتاشہ محمد زئی اور سلیم رحمان کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ۔
تصیح: اس سے قبل اس فیچر میں 284 بچوں کو اسکینڈل میں متاثر بتایا گیا تھا۔ یہ تعداد متاثرہ خاندانوں کے وکلاء کی جانب سے فراہم کی گئی تھی۔ تحقیقات میں جے آئی ٹی نے اس تعداد کو غلط قرار دیتے ہوئے 20 بچوں کی پورنوگرافک ویڈیوز اور جنسی استحصال کے واقعات کی تصدیق کی تھی جبکہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی رپورٹ کے مطابق اسکینڈل میں بڑی تعداد میں بچے متاثر ہوئے۔