پاکستان
Time 21 فروری ، 2018

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سینیٹ انتخابات پر سوالیہ نشان لگ گیا

نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سینیٹ انتخابات کے مقررہ وقت میں انعقاد پر سوالیہ نشان لگ گیا۔

سینیٹ الیکشن شیڈول کے مطابق ہوں گے ؟ یا ملتوی ہوں گے ؟ قانونی ماہرین کی رائے بھی منقسم ہے۔

الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف عوامی مسلم لیگ کی درخواست کی پیروی کرنے والے بیرسٹر فروغ نسیم کہتے ہیں سینیٹ الیکشن بروقت ہوں گے اور فیصلے کے بعد صرف ن لیگ الیکشن سے آؤٹ ہوئی ہے۔

تاہم اکرام چوہدری ا یڈووکیٹ کا مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کو سینیٹ الیکشن کا نیا شیڈیول جاری کرنا ہو گا۔

تفصیلی فیصلہ ملنے سےقبل سینیٹ انتخابات سےمتعلق کچھ نہیں کہاجاسکتا، ترجمان الیکشن کمیشن

اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ترجمان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پارٹی سربراہی کے حوالے سے دیا جانے والا فیصلہ موصول نہیں ہوا۔

ترجمان کے مطابق عدالتی فیصلہ ملنے کے بعد اس کا جائزہ لیا جائے گا اور الیکشن کمیشن قانونی پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرے گا۔

ترجمان نے کہا کہ تفصیلی عدالتی فیصلہ ملنے سے قبل سینیٹ انتخابات سے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ

سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات 2017 کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کی دفعہ 62، 63 پر پورا نہ اترنے والا نااہل شخص کسی سیاسی جماعت کی صدارت نہیں کرسکتا۔

فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف مسلم لیگ نواز کی صدارت کے لیے نااہل ہوگئے ہیں جنہیں پاناما کیس کے فیصلے میں آئین کی دفعہ 62، 63 کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ساڑھے 4 بجے دوبارہ آئیں گے اور بتائیں گے کہ مختصر حکم دینا ہے یا فیصلہ کرنا ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے تحریر کیے جانے والے پانچ صفحات پر مشتمل فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کا پارلیمنٹ کے امور میں بڑا مرکزی کردار ہوتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی شق 203 اور232 کو آرٹیکل 62 اور63 اے کے ساتھ پڑھا جائے گا، آرٹیکل 62 اور63 کے تحت اہلیت نہ رکھنے والا شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا۔

ایسا شخص آرٹیکل 63 اے کے تحت پارٹی سربراہ یا کسی حیثیت میں کام نہیں کرسکتا۔

فیصلے میں نواز شریف کی جانب سے بطور مسلم لیگ نواز کے صدر تمام اقدامات، احکامات اور ہدایات کالعدم قرار دی گئیں۔

نواز شریف کے 28 جولائی کی نااہلی کے بعد بطور پارٹی سربراہ تمام احکامات کالعدم قرار دے دیے گئے جبکہ ان کی طرف سے بطور پارٹی سربراہ جاری دستاویزات بھی کالعدم دی گئیں۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن نوازشریف کا نام بطور پارٹی صدر مسلم لیگ ن ریکارڈ سے ہٹا دے۔

مزید خبریں :