اگرچہ قیامِ امن کے بعد فاٹا کی ایجنسی شمالی وزیرستان کے تعلیمی نظام میں بہتری نظر آ رہی ہے، تاہم اب بھی یہاں ایسے تعلیمی ادارے موجود ہیں جہاں اساتذہ کی غیر حاضری اور سہولیات نہ ہونے کے باعث طلبہ کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
شمالی وزیرستان کے سب ڈویژن میر علی کے ساتھ ڈیڑھ کلومیٹر فاصلے پر واقع دریائے ٹوچی کے قریب گاؤں حسوخیل میں واقع گورنمنٹ ہائی اسکول بھی ایسا ہی ایک تعلیمی ادارہ ہے، جس کی حالت انتہائی بوسیدہ ہے۔
اسکول کے پرنسپل میر مشرف کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعلقہ تمام اداروں کو مسائل سے آگاہ کر رکھا ہے۔
اسکول کی حالت زار کے حوالے سے پرنسپل میر مشرف نے بتایا کہ 'اسکول کے کمرے منہدم ہو چکے ہیں، طلبہ و اساتذہ کے لیے کرسیاں، ڈیسک اور باتھ روم کی سہولت تک موجود نہیں اور کمروں کی چھتیں ٹپک رہی ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس اسکول کی چار دیواری تک نہیں ہے جبکہ لائبریری، لیبارٹری اور بچوں کے کھیل کود کے گراؤنڈز کا بھی کوئی وجود نہیں ہے'۔
اسکول پرنسپل کا مزید کہنا تھا کہ پہلے اس سکول میں بچوں کی تعداد 750 تھی جو اب کم ہوکر 300 ہوگئی ہے۔
واضح رہے کہ اس اسکول کے پرائمری سیکشن کا افتتاح قیام پاکستان سے قبل ہوا تھا۔
اسکول کے ایک استاد عالم زیب خان نے بتایا کہ 'والدین بچوں کو بھیجتے ہیں تاہم اسکول میں سہولیات نہ ہونے کے باعث طلبہ کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے'۔
ساتویں جماعت کے ایک طالب علم سنان احمد نے بتایا کہ 'سال کے آغاز میں مجھے اور میرے ایک ہم جماعت کو ایک ماہ بعد محض ایک درسی کتاب دی گئی، اب جب سیشن ختم ہونے کو ہے، تب بھی ہم دو کتابوں سے محروم ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'انہیں چٹائی بھی اساتذہ نے خود خرید کر دی ہے، حتیٰ کہ اسکول میں کھیل کا بھی کوئی بندوبست نہیں'۔
دوسری جانب شمالی وزیرستان کے ایجنسی ایجوکیشن آفیسر حبیب اللہ کا کہنا ہے کہ 'ایجنسی میں تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں سے سیکڑوں فعال ہیں'۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'شمالی وزیرستان میں طویل عرصے سے غیر حاضر اساتذہ کی جانچ پڑتال کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے'۔
اس حوالے سے پولیٹیکل ایجنٹ کامران آفریدی نے جیو نیوز کو بتایا کہ 'آپریشن ضرب عضب کے بعد اسکولوں میں اساتذہ کی غیر حاضریوں کی شکایات پر ایجنسی کے تمام اساتذہ کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کر دیا گیا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ایجنسی میں 60 فیصد سے زائد اساتذہ نے حاضری یقینی بنائی ہے تاہم 100 فیصد حاضری یقینی بنانے کے لیے سیکورٹی فورسز سے بھی مدد طلب کی گئی ہے'۔
کامران آفریدی کا کہنا تھا کہ ان کے حکم پر دو ماہ قبل ایجنسی ایجوکیشن آفیسر نے مختلف اسکولوں پر چھاپے مارے اور مسلسل غیر حاضری کی شکایت پر 22 خواتین اساتذہ کو معطل کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم مزید غیر حاضر اساتذہ کی لسٹیں تیار کرکے انہیں معطل کریں گے'۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ 'ہم نے غیر حاضر اساتذہ کی تنخواہوں سے 70 لاکھ روپے ریکوری بھی کی ہے۔'
اس حوالے سے سماجی کارکن و سیاسی ورکر جمال خان نے جیو نیوز کو بتایا کہ 'علاقے میں پوسٹ گریجویٹ کالج میرانشاہ اب بھی بند ہے، اسی طرح گورنمنٹ ہائی اسکول حیدر خیل کے کمرے منہدم ہو چکے ہیں اور بہت سے دیگر ایسے اسکول بھی ہیں جہاں اساتذہ حاضری یقینی نہیں بناتے اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ و طالبات وہاں نہیں جانا چاہتے'۔
محکمہ ایجوکیشن کے اہلکار سید محمد کے مطابق 'شمالی وزیرستان میں 971 سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں سے چار ہائی اسکولوں سمیت 46 پرائمری اسکول مکمل طور پر منہدم ہو چکے ہیں جبکہ 65 اسکولوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے'۔
سید محمد کے مطابق چاروں ہائی اسکولوں پر 3،3 کروڑ روپے خرچ ہوں گے جس کے لیے انہوں نے فاٹا سیکرٹریٹ کو لکھا ہے۔