بلاگ
Time 10 مارچ ، 2018

انکار کو احترام چاہیئے !

میڈیکل کی طالبہ عاصمہ رانی کو 28 جنوری 2018 کو کوہاٹ میں رشتہ نہ دینے پر مجاہد آفریدی نامی شخص نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا—۔فائل فوٹو

عاصمہ رانی کے نام سے ہم شاید کبھی واقف نہ ہوتے اگر اسے قتل نہ کر دیا جاتا۔ کچھ سال بعد وہ اپنے علاقے کی ایک قابل ڈاکٹر کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہوتی، خوشگوار زندگی گزارتی، ایک مسیحا کے روپ میں سامنے آتی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اس کے قتل سے نجانے کتنے ہی خواب اور کتنی خواہشیں ان کہی اور ان سنی رہ گئیں۔ 

کوئی آپ کو اچھا لگے اور آپ اس کے ساتھ زندگی گزارنا چاہیں، اس کے گھر رشتہ بھیجیں لیکن وہاں سے انکار ہو جائے تو کیا آپ اسے اپنی توہین سمجھ لیں گے؟ اس سے اگر آپ کی انا کو ٹھیس پہنچے تو کیا اس کا مداوا یہ ہے کہ آپ اس لڑکی کو قتل کر دیں؟

المیہ یہ ہے کہ عاصمہ رانی سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔ اس سے بھی بڑھ کر ستم یہ ہے کہ آپ جب چاہیں کسی سے بھی فیصلے کی آزادی چھین لیں۔ یہ ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا کہ آپ جس پر بھی ہاتھ رکھ دیں، جس کی طرف بھی اشارہ کر دیں بس وہ آپ کی ہو جائے۔

عاصمہ کے قتل سے پہلے ایک عرصے تک تیزاب گردی کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ ہم نے متعدد ایسے کیسز دیکھے ہیں جہاں خواتین کو شادی سے انکار پر تیزاب گردی کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی زندگی تباہ کر دی گئی۔ 

ظلم یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نہ لڑکیوں کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کا اور نہ ہی انکار کا اختیار ہے۔ اگر لڑکی پسند کی شادی کر لے تو اسے غیرت کے نام قتل کر دیا جاتا ہے اور اگر وہ انکار کردے تب بھی کوئی مرد انا کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس سے جینے کا حق چھین لیتا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے جرائم میں ہمیشہ مرد ہی ملوث نہیں ہوتے بلکہ ہمیں خواتین بھی ایسا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ چند برس قبل لاہور میں زینت نامی ایک لڑکی کو پسند کی شادی کرنے پر اس کی اپنی ہی ماں نے زندہ جلا دیا تھا۔

کوہاٹ کی حنا شاہنواز بھی ایک ایسی ہی خودمختار لڑکی تھی، جسے نوکری کرنے کے گھناؤنے جرم میں بےدردی سے قتل کردیا گیا۔ یہ تو چند ایسے نام اور واقعات ہیں جو میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچے، مگر ایسے مظالم کا شکار لڑکیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ وہ خبر نویسوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ ان کی اہمیت تاریخ کے قبرستان میں موجود بےنام قبروں سے زیادہ نہیں ہوتی، جن پر خاموشی کی گرد اڑ رہی ہوتی ہے۔ سرگوشیوں میں کہانی بتائی جاتی ہے اور کہیں تو ان سرگوشیوں کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔

ہم نے یہ اصول بنا لیا ہے کہ اگر کسی خاتون کو اس معاشرے میں رہنا ہے تو وہ خسرو کی پیا بن کر رہے۔ ’جیت گئی تو پیا مورے، جو میں ہاری پی کے سنگ۔‘

ہمیں ایک بہتر معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے، جہاں حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو۔ ایسا معاشرہ جہاں ہر انسان کو اپنی زندگی سے متعلق فیصلہ کرنے کی آزادی ہو اور انکار کا حق تسلیم کیا جائے۔ ناپسندیدہ رشتے میں مزید نہ بندھے رہنے کا فیصلہ کرنا قدرے آسان ہو سکے۔ کسی رشتے کو کھونے سے ڈرنا اور بات ہے لیکن اسے اپنی ملکیت سمجھنا اور راہیں جدا کرنے پر بلیک میلنگ سے کام لینا اذیت میں مبتلا رکھنا یا قتل کر دینا ایک سنگین جرم ہے۔

یہ کچھ خوش گوار احساس نہیں ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہم وہ حق مانگ رہے ہیں جو ہمیشہ سے ہمارا ہی تھا، مگر یا تو حق دیا نہیں گیا یا پھر اسے احسان سمجھا گیا۔ یہ تعلیم کا حق ہے، لباس کے انتخاب میں آزادی کا حق ہے، ذاتی پسند نا پسند کا حق ہے، زندگی گزارنے سے متعلق فیصلے کا حق ہے، شریکِ حیات کے انتخاب کا حق ہے، زندگی کے کسی موڑ پر تعلق کو مزید نبھا نہ سکنے پر چھوڑ دینے کا حق ہے۔

اپنا حق استعمال کرنے کی صورت میں تذلیل کوئی نہیں چاہتا مگر سامنا اکثر اسی کا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ انکار کا مرتبہ اقرار سے کم نہیں ہے۔ جس طرح کسی بھی جنس کا مرتبہ کسی دوسری جنس سے کم نہیں ہے، بالکل اسی طرح ایک عورت کا کسی بات سے انکار بھی اس کا حق ہے، جس کا احترام کرنا ضروری ہے!


رامش فاطمہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور @Ramish28 پر ٹوئیٹ کرتی ہیں۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔