تپتی دوپہروں میں پینے کے صاف پانی کی تلاش

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے حلقے میں پینے کے صاف پانی کی تلاش کسی مہم جوئی سے کم نہیں۔

ایک تنگ سی سڑک کے ساتھ بنے چھوٹے سے پانی کے کنویں میں ایک نوجوان لڑکا کھدائی میں مصروف ہے، وہ اپنے بیلچے کی مدد سے مٹی اٹھا اٹھا کر سائیڈ پر پھینکتا ہے۔ سوا نیزے پر موجود سورج کی تپش اسے اپنی پشت پر محسوس ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود وہ بار بار یہی عمل دہرائے جارہا ہے۔ آخرکار کئی گھنٹے بعد زمین سے پانی نمودار ہوتا ہے۔ کنویں کے باہر کھڑا ایک شخص، رسی سے بندھی ایک بالٹی اندر پھینکتا ہے، جسے کنویں کے اندر موجود نوجوان پانی سے بھرتا ہے اور باہر کھڑے شخص کو بالٹی نکالنے کا سگنل دیتا ہے۔

یہ دونوں افراد سندھ کے ضلع دادو کے علاقے جوہی ٹاؤن سے 27 کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے گاؤں چھنی سے تعلق رکھتے ہیں. یہ گاؤں کھیر تھر کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے، جو سندھ-بلوچستان بارڈر پر جامشورو، دادو سے لے کر سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ تک پھیلا ہوا ہے۔

نوجوان سلطان، کاچھو کے علاقے میں گاجی شاہ مزار کے قریب واقع گاؤں میں ہتھ گاڑی چلاتا ہے اور اپنے گھر والوں کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے روزانہ 4 گھنٹے کنویں سے پانی بھرتا ہے۔

کنواں کھودنے والے شخص محمد آچر نے بتایا، 'ہمیں پانی کی شدید ضرورت ہے، ہمارے پرانے کنویں خشک ہوچکے ہیں اور یہ نیا کنواں بھی زیادہ سے زیادہ 6 مہینے تک پانی کی ضروریات پورا کرپائے گا'۔

ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں بھی پینے کے پانی کی تلاش میں کنوؤں کی کھدائی کے یہ مناظر اس علاقے میں جابجا نظر آتے ہیں—۔

اس جیسے بہت سے گاؤں صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 73 میں آتے ہیں، جہاں سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ 2014 میں رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ (رواں برس الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حلقہ بندیوں کی نئی فہرست جاری کی ہے، لہذا یہ واضح نہیں ہے کہ مذکورہ حلقوں کو بھی ری ڈیزائن کیا گیا ہے یا نہیں)

جولائی 2016 میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ مراد علی شاہ کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے وزیراعلیٰ سندھ کے عہدے پر نامزد کیا۔ ان سے قبل اس عہدے پر عمر رسیدہ سید قائم علی شاہ تعینات تھے، جنہیں بدانتظامی کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا رہا۔

یہی وجہ ہے کہ مراد علی شاہ کو تعینات کرکے پیپلز پارٹی نے اس تاثر کو بدلنے کی کوشش کی۔ وزیراعلیٰ سندھ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 55 سالہ مراد علی شاہ نے کراچی اور صوبے کے دیگر اضلاع میں متعدد ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا، لیکن ان کے اپنے حلقے میں، لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔

کاچھو کے علاقے میں بچوں اور خواتین کو پانی کی قلت کے سبب سب سے زیادہ مشکلات اٹھانی پڑتی ہیں، زیادہ تر بچے اسکول نہیں جاتے کیونکہ انہیں اپنے گھر والوں کے لیے کنوؤں سے پانی بھرنا ہوتا ہے۔

گرمیوں میں کاچھو کے غریب باسی پینے کے لیے بارش کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ اس جیسے بہت سے علاقے گذشتہ 10 برس سے پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں، کیونکہ خشک سالی کی وجہ سے یہاں اوسط سے بھی کم بارش ہوئی۔


جوہی کنال سے نکلنے والی بہت سی نہریں اس علاقے سے گزرتی ہیں لیکن گذشتہ 3 سے 4 دہائیوں سے یہ نہریں اور کنال خشک ہوکر مٹی سے بھر چکی ہیں۔

چھنی گاؤں کے باہر 5 ہینڈ پمپس بھی لگائے گئے تھے، جن میں سے 4 خشک ہوچکے ہیں اور صرف ایک ہینڈ پمپ فعال ہے۔

12 سالہ بخشل، اپنے گدھے پر پانی کے 2 کنستر لادے چھنی سے 3 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اپنے گاؤں سے کنویں پر پانی بھرنے آیا، اسے یہاں تک پہنچنے میں 3 گھنٹے لگے۔

بخشل نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا، 'کبھی کبھار مجھے پانی بھرنے کے لیے 2 مرتبہ یہاں تک کا سفر کرنا پڑتا ہے، میرا پورا دن اسی سفر میں آتے جاتے گزر جاتا ہے'۔

بخشل اسکول نہیں جاتا، اس نے بتایا، 'یہاں ایک شخص چنگچی پر پانی فروخت کرتا ہے، لیکن وہ بہت مہنگا پڑتا ہے۔ میرے والد مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور مجھے پانی بھرنا پڑتا ہے، لہذا میرے پاس اسکول جانے کے لیے وقت نہیں ہوتا۔'

ایک اور مقامی شخص محمد خان نے بتایا کہ زیر زمین پانی 400 سے 500 فٹ گہرائی میں موجود ہے، کبھی کبھار یہ پانی اتنا کھارا ہوجاتا ہے کہ پینے کے قابل نہیں رہتا۔

ان کا کہنا تھا ، 'جب بارشیں زیادہ ہوتی ہیں تو یہاں پانی زیادہ ہوتا ہے، بارشوں کے موسم میں چھوٹے دریا مثلاً نئی گاج بھی بہتا ہے، جس سے زیر زمین پانی کی سطح بڑھ جاتی ہے، اس سے زمین کے نیچے موجود پانی کا معیار بھی بہتر ہو جاتا ہے لیکن گذشتہ کئی برسوں سے یہاں کوئی بارش نہیں ہوئی'۔

محمد خان کے مطابق ، 'یہاں سے مین نارا ویلی نالہ (ایم این وی ڈی) بھی گزرتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو 20 سے 30 فٹ کی گہرائی میں بھی پانی مل جاتا ہے، لیکن اس طرح کے ذرائع سے پانی صرف کچھ مہینوں کے لیے ہی دستیاب ہوتا ہے، جس کے بعد ہمیں دوبارہ سے کنویں کھودنے پڑتے ہیں'۔

سلطان نامی یہ ایک بچہ ہتھ گاری میں ڈرم رکھے پانی کی تلاش میں سرگرداں ہے—.

اس علاقے میں پانی کے ڈرم اور کنستر اٹھاتے تپتی دھوپ میں میلوں دور تک پیدل چلتے نوجوان لڑکے، لڑکیاں، خواتین اور مرد نظر آنا ایک معمول کی بات ہے۔

پانی کی یہ قلت لائیو اسٹاک اور جنگلی حیات کی زندگیوں پر بھی اثرات مرتب کر رہی ہے، جس کے باعث اس علاقے سے بڑی تعداد میں لوگ صوبے کے دیگر اضلاع میں نقل مکانی کرچکے ہیں۔

ضلع دادو میں کام کرنے والی سجاگ سنسار نامی این جی او کے صدر معشوق براہمانی کے مطابق اگرچہ اس حوالے سے کوئی سرکاری اعدادوشمار دستیاب نہیں کہ کاچھو ریجن سے پانی کی قلت کے باعث کتنے لوگوں نے نقل مکانی کی، تاہم یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا، 'ہر گزرتے برس یہ صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے'، ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے اس کے سدباب کے لیے کچھ نہ کیا تو چند دہائیوں میں یہ پورا علاقہ ویران ہوجائے گا۔