یہ رات 9 بجے کا وقت ہے۔ سنی نے پہلے دائیں اور پھر بائیں ٹرن لیا اور دو پہیوں پر اپنے رکشے کا توازن برقرار کیا۔ وہ لاہور کے ایک متوسط علاقے سمن آباد میں ایک پرہجوم بازار میں واقع ایک شادی ہال جا رہا تھا۔ وہاں پہنچ کر اس نے رکشہ روکا اور 3 مسافر اس کی سواری میں سے اتر گئے۔ سنی بہت تھک چکا تھا، اس کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے لیکن اسے سڑک کے کنارے انتظار کرنا تھا۔ شاید کوئی اور گاہک آرہا ہو۔
یوحنا آباد کے رہائشی سنی کے دن کا آغاز صبح 6 بجے ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے کے بعد وہ اپنے رکشہ میں لاہور کی سڑکوں کی خاک چھانتا ہے۔ اس کے کام کے کوئی باقاعدہ اوقات کار یا چھٹی کے دن نہیں ہیں۔ وہ گھر اُسی وقت واپس جاتا ہے جب وہ معقول پیسے کما لیتا ہے۔
سمن آباد کی اس مارکیٹ میں کھڑے ہوئے اسے ایک گھنٹہ گزر چکا ہے، بازار میں رش کم ہونا شروع ہوگیا ہے لیکن سنی کو اب بھی کسی مسافر کی تلاش ہے۔ وہ ونڈ اسکرین کے پار اس امید پر دیکھ رہا ہے کہ شاید کوئی ایسا مسافر مل جائے جسے اُس کے گھر کی طرف جانا ہو۔ چند لوگ آئے بھی لیکن یا تو انہیں مخالف سمت میں جانا تھا یا پھر اُن سے کرایہ طے نہیں ہو پایا۔ آخر کار رات 10 بجکر 20 منٹ پر اُس نے انتظار ترک کردیا، انجن اسٹارٹ کیا اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
سنی نے شکستہ دل کے ساتھ کہا، 'سمن آباد کا یہ علاقہ ہمیشہ انتہائی مصروف ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود مجھے ایک بھی سواری نہیں ملی۔ کوئی ایک شخص بھی اُس طرف نہیں جا رہا جہاں مجھے جانا ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ انہوں نے لازمی 'اوبر' بُک کروالی ہوگی۔'
رکشہ پاکستان میں سفری سہولت دینے والی ایک تاریخی سواری ہے، جو اب تک جدت کے کئی مراحل سے گزر چکی ہے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس سواری کو 19 ویں صدی کے آخر میں انڈیا میں چینی تاجروں نے اشیاء کی ترسیل کے لیے متعارف کروایا تھا۔ پہلے پہل رکشے کے دو پہیے ہوتے تھے، جسے ڈرائیور پیدل کھینچا کرتے تھے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس چھوٹی گاڑی میں موٹر یعنی انجن بھی شامل کردیا گیا۔ کافی وقت تک اسے اندرون شہر سفر کے لیے ایک سستی سواری سمجھا جاتا تھا اور کاروں، اسکوٹروں اور ٹیکسیوں میں اضافے نے بھی رکشے کے بزنس پر کوئی اثر نہیں ڈالا تھا، لیکن اب سفری سہولیات فراہم کرنے والی آن لائن سروسز 'اوبر' اور 'کریم' اور 'شاہ سواری' جیسی چند رکشہ سروسز متعارف ہونے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑے شہروں میں سنی جیسے رکشہ چلانے والوں کے دھندے پر کافی اثر پڑ رہا ہے۔
لاہور کی مثال لے لیں۔ لاہور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کے مطابق 11 ملین آبادی والے اس شہر میں کُل 90 ہزار پرائیویٹ رکشے موجود ہیں، جن کا روزی روٹی کمانا اس وقت مشکل میں ہے۔
2016 تک، جب 'اوبر' اور 'کریم' نے پاکستان میں اپنی سروسز شروع نہیں کی تھیں، رکشہ اور رکشہ ڈرائیوروں کی اجارہ داری تھی۔ کرایوں پر بحث ہوسکتی تھی اور اکثر اوقات کرائے عین موقع پر ڈرائیور اور مسافر آپس میں طے کرلیتے تھے۔ اُن دنوں سنی صبح 9 سے دن 12 بجے تک کام کرکے باآسانی 15 سو روپے روزانہ کما لیتا تھا لیکن اب اگر وہ روزانہ 13 گھنٹے بھی کام کرے تب بھی وہ محض ایک ہزار روپے کما پاتا ہے اور وہ بھی اُن دنوں جب کام کے لحاظ سے دن اچھا ہو۔
دیگر رکشے والوں کی طرح وہ بھی اپنی کمائی میں کمی کا ذمہ دار سفری سہولیات دینے والی آن لائن ایپس کو ہی ٹھہراتا ہے جو 200 روپے جتنے کم کرائے میں بھی سفر کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔
سنی نے سوال کیا، 'اگر آپ کو سفر کرنا ہو اور آپ کو ایئر کنڈیشن والی کار یا ایک چھوٹی سی اوپن سواری کا انتخاب کرنا ہو تو آپ کس کا انتخاب کریں گے؟'، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا، 'ہم کیسے ان سے مقابلہ کرسکتے ہیں؟'
کاروں کے علاوہ، 'اوبر' اور 'کریم' اپنے کسٹمرز کو رکشہ کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔ دوسری جانب لاہور میں آن لائن ایپس کے ذریعے سفری سہولیات فراہم کرنے والی کمپنیوں میں بھی 2 سالوں میں اضافہ ہوا ہے اور اب 'شاہ سواری'، 'راکٹ رکشہ' اور 'بائیکیا' بھی کسٹمرز کو رکشوں اور موٹرسائیکل پر سفر کی سہولت فراہم کرنے میں پیش پیش ہیں، حتیٰ کہ 'شاہ سواری' تو ایک مسافر کو محض 5 روپے فی کلومیٹر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ان ایپ کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے والے ڈرائیور بھی زیادہ معاوضہ کما لیتے ہیں جبکہ ساتھ میں انہیں دیگر مراعات بھی حاصل ہوتی ہیں۔ یہ کمپنیاں اُن دنوں میں اپنے ڈرائیورز کو 5 ہزار روپے تک کا بونس بھی دیتی ہیں جب سواریاں کم ہوتی ہیں۔
لیکن ندیم خان جیسے شخص کے لیے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں شمولیت اختیار کرنا بہت مشکل ہے، جس نے اسکول کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل نہیں کی۔ ندیم نے بتایا، 'مجھے تو پڑھنا بھی نہیں آتا، میں ایک نقشہ (Map) کیسے دیکھ سکتا ہوں؟'
ندیم اپنا رکشہ فروخت کرنے اور اس کی جگہ ایک کریانے کی دکان کھولنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں، جو انہوں نے ایک لاکھ 75 ہزار روپے میں خریدا تھا۔
سواری کا انتظار کرتے ہوئے ندیم نے ایک ٹریفک پولیس اہلکار کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا تو فوراً رکشہ اسٹارٹ کیا اور وہاں سے رفو چکر ہوگیا۔ یہ پولیس اہلکار نجی رکشہ ڈرائیوروں کے روزگار کی راہ میں تیسری بڑی رکاوٹ ہیں۔
دوسری جانب ٹریفک کے نظام کی نگرانی کرنے والی لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی (ایل ٹی سی) نے ایک نیا قانون نکالا ہے، جس کے تحت ہر رکشہ کو ایک روٹ پرمٹ دیا جائے گا، جس پر 25 سو روپے لاگت آئے گی اور جو 3 سال کے لیے قابل عمل ہوگا۔ سنی نے شکایت کی، 'یہ رقم بہت زیادہ ہے اور اگر ہم پرمٹ کی وقت پر تجدید نہ کروائیں تو ہمیں 200 روپے روزانہ کے حساب سے جرمانہ بھی بھرنا پڑے گا۔'
حقیقت یہ ہے کہ سفری سہولیات دینے والی ان آن لائن ایپس کے لیے نہ تو روٹ پرمٹ کی کوئی قید ہے اور نہ ہی ان کے ڈرائیورز کے لیے۔ سنی کے مطابق، 'لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی ہمارے روزگار کی قیمت پر ان ایپس کے کاروبار کو فروغ دے رہی ہے اور ان کے کرائے غریب لوگوں کے لیے زیادہ ہیں۔'
تاہم ایل ٹی سی کے ڈپٹی منیجر کمیونیکیشنز اس سے اختلاف کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے، 'ہم اب تک 60 ہزار سے زائد روٹ پرمٹ جاری کرچکے ہیں'، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ 'روٹ پرمٹ کے اجراء کے وقت ہم گاڑی کی فٹنس کو بھی چیک کرتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ صرف ماحول دوست گاڑی ہی سڑکوں پر آئے۔ زیادہ تر نجی رکشہ ڈرائیوروں نے گیس سلینڈرز لگا رکھے ہیں، جو نہ صرف غیر قانونی بلکہ خطرناک بھی ہیں'۔
بے شک بڑے شہروں میں جہاں آن لائن ایپس کی وجہ سے نجی رکشوں کی کمائی میں کمی آئی ہے، چھوٹے شہروں میں اب بھی رکشوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
تاہم لاہور کے ایک ڈرائیور کا کہنا ہے کہ وہ ہار نہیں مانیں گے۔ ایک مقامی لیبر یونین عوامی رکشہ ڈرائیور یونین نے اپنی ذاتی موبائل ایپلیکیشن 'عوامی سواری' کے لیے فنڈنگ شروع کردی ہے۔
یہ یونین باقاعدگی سے احتجاجی مظاہرے اور تربیتی سیشنز بھی منعقد کرواتی ہے تاکہ رکشہ ڈرائیورز کو اس حوالے سے تعلیم دی جاسکے کہ گوگل میپس کس طرح استعمال کیا جاتا ہے لیکن 9 روپے فی کلومیٹر اور 48 روپے بنیادی کرائے کے ساتھ یہ ایپ، دیگر سستے حریفوں کے مقابلے میں ناکام نظر آتی ہے۔
یونین کے صدر مجید غوری نے بتایا، 'ہر صبح جب میں سو کر اٹھتا ہوں تو اپنے نقصان کا ذمہ دار پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) کو ٹھہراتا ہوں، جس نے ہم سے مشاورت کیے بغیر ان موبائل ایپلیکیشنز کو اجازت دی، اب ہم صرف ایک ہزار روپے روزانہ کما پاتے ہیں، جس میں سے 350 روپے ہمیں رکشے کے مالک کو دینے پڑتے ہیں اور پھر مرمت کے کام بھی نکلتے ہی رہتے ہیں۔'
دی عوامی رکشہ یونین میں لاہور کے 23 ہزار ڈرائیورز شامل ہیں۔ مجید غوری کے مطابق 'چند ماہ میں لاہور میں میٹرو ٹرین بھی آجائے گی، ان حالات میں اور آنے والی گرمیوں میں ہمارے بغیر اے سی والے رکشے تو کسی کام کے نہیں رہیں گے'۔
تاہم ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازمت کرنے والے بھی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔کریم کے ایک ڈرائیور ثمر مسیح * کا ماننا ہے کہ تین پہیوں والی ان کی سواری کا مستقبل کچھ بہت اچھا نہیں ہے۔
50 سالہ ثمر نے اعتراف کیا کہ ایپ کے ساتھ منسلک ہوئے بغیر اور ذاتی طور پر رکشہ چلا کر وہ زیادہ پیسے کما سکتے ہیں، انہوں نے بتایا، 'ہاں ہمیں بونس ملتا ہے لیکن کمائی کچھ خاص نہیں ہوتی'، ساتھ ہی انہوں نے کہا، 'ہمیں اس بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ آئندہ 10 سالوں میں رکشے ختم ہوجائیں گے۔'
بڑے شہروں کے بہت سے رکشہ ڈرائیوروں کے خیال میں یہ جدیدیت کی جانب ایک خطرناک دوڑ ہے۔
سنی پہلے ہی اپنے بچوں کو کہہ چکے ہیں کہ وہ انہیں بنیادی انگریزی سکھا دیں تاکہ وہ آن لائن میپ کو دیکھ سکے، ان کا کہنا تھا، 'میں ان طویل دنوں سے تھک چکا ہوں، لیکن انگریزی سیکھنے کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ میں رکشہ چلاؤں گا یا نہیں۔'
* نام تبدیل کردیئے گئے ہیں۔