پاکستان
Time 20 اپریل ، 2018

طبیبہ تشدد کیس: سزا پانے والے سابق جج نے فیصلے کو چیلنج کردیا

سزا پانے والے سابق جج کی اپیل کیلئے ڈویژن بینچ تشکیل دینے کی استدعا۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد: طیبہ تشدد کیس میں سزا پانے والے سابق جج راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ  ماہین ظفر نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو چیلنج کردیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے طیبہ تشدد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کو ایک ایک سال قید اور 50،50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی جسے ہائیکورٹ میں ہی چیلنج کردیا گیا ہے۔

سزا پانے والے دونوں میاں بیوی نے درخواست میں عدالت سے استدعا کی کہ اپیل کے لیے خصوصی ڈویژن بینچ تشکیل دے کر سماعت کی جائے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے ٹرائل کے بعد طیبہ تشدد کیس کا فیصلہ 27 مارچ کو محفوظ کیا جو 17 اپریل کو سنایا گیا۔ 

فیصلے کے روز ہی سابق جج راجا خرم علی اور ان کی اہلیہ نے ضمانت کے لیے درخواست دی جسے عدالت نے منظور کرلیا تھا۔

طیبہ تشدد کیس— کب کیا ہوا؟

کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کا واقعہ 27 دسمبر 2016 کو پیش آیا تھا اور پولیس نے 29 دسمبر کو سابق ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم کے گھر سے طیبہ کو تحویل میں لیا تھا۔

تشدد کے واقعے میں ملوث دونوں ملزمان کے خلاف تھانہ آئی نائن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

3 جنوری 2017 کو کیس میں اہم موڑ آیا اور طیبہ کے والدین کی جانب سے راجا خرم اور ان کی اہلیہ کو معاف کرنے کی رپورٹس سامنے آئیں، تاہم راضی نامہ سامنے آنے پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے معاملے کا از خود نوٹس لیا تھا۔

سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے 8 جنوری 2017 کو طیبہ کو بازیاب کرا کے پیش کیا تھا جبکہ عدالتی حکم پر 12جنوری 2017 کو راجا خرم علی خان کو بطور جج کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

بعدازاں چیف جسٹس آف پاکستان نے مقدمے کا ٹرائل اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوادیا تھا جہاں 16 مئی 2017 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

اس مقدمے میں مجموعی طور پر 19 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں 11 سرکاری جبکہ طیبہ کے والدین سمیت 8 غیر سرکاری افرادشامل تھے۔

مزید خبریں :