ووٹ کو عزت دینی ہے یا ووٹر کو؟

11 مئی 2013 کے عام انتخابات کے دن اسلام آباد کے ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر ووٹرز قطار میں کھڑے ہیں—۔ فائل فوٹو/ اے ایف پی

موجودہ حکومت کے مینڈیٹ کی مدت 31 مئی کو ختم ہونے جا رہی ہے۔ عام انتخابات کا طبل بجنے کو ہے۔ موسم گرما کے ساتھ سیاسی گرما گرمی بھی عروج پر ہے۔ بحث کا ایک بازار گرم ہے، ووٹ کو عزت دینی ہے یا ووٹر کو؟ 

عوامی نمائندے آستینیں چڑھائے، تازہ دم ہو کر عوامی میدان میں اتر گئے ہیں۔بیروزگاری اور مہنگائی کو جڑ سے ختم کرنے اور بجلی، پانی اور گیس گھر گھر تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ مفت علاج اور مفت تعلیم کے سہانے خوابوں کی پٹاریاں بھی کھول دی گئی ہیں۔ 

اپنی ’نیک نیتی‘ کو ثابت کرنے کے لیے 4 سالوں سے بند گٹر لائنیں کھلوائی جارہی ہیں، سڑکوں کی ملمع کاری ہو رہی ہے۔ پانی کی عدم فراہمی پر خودکشی کی دھمکیاں اور بجلی نہ ملنے پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عوامی نمائندے منتخب ہوتے ہی دوسری دنیا پدھار گئے تھے اور اب انتخابات سے قبل انہیں اچانک یاد آیا کہ اُن کے ووٹرز مشکل میں ہیں۔

ہر سیاسی جماعت کے نمائندے کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس عوام کے تمام مسائل کا حل ہے، بس اُسے ووٹ دیں اور مسائل چٹکی بجاتے ہی حل! جبکہ عوام اپنی تقدیر پر حیران و پریشان ہیں کہ ان کے ساتھ یہ مشق آخر کب تک دہرائی جاتی رہے گی اور کب تک انہیں ووٹ کے تقدس کے نام پر لوٹا جاتا رہے گا۔

ہمارے ہاں سیاسی رہنماؤں کا حافظہ الیکشن جیتتے ہی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، لیکن انتخابات قریب آتے ہی ان کی یاد داشت واپس آجاتی ہے

منتخب نمائندوں کی جانب سے مسلسل وعدہ خلافیوں، محض کھوکھلے نعروں اور دعووں کی وجہ سے آج عوام کی نظر میں ووٹ کی اہمیت نہیں رہی، لوگ انتخابی عمل میں صرف روایتی طور پر شرکت کرتے ہیں۔ سیاستدان بھی جانتے ہیں کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے، اس لیے وہ ہر بار نئے اور خوشنما دعووں کی دکان سجالیتے ہیں، وعدوں کا نیا جال بنتے ہیں اور عوام کو اُس میں پھنسالیتے ہیں۔

ہمارے ہاں سیاسی رہنماؤں کا حافظہ الیکشن جیتتے ہی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، لیکن انتخابات قریب آتے ہی ان کی یاد داشت واپس آجاتی ہے، وہ دوبارہ سے پانچ سال قبل کیے گئے دعووں پر 'نیا میدان مارنے' کی تیاری میں جُت جاتے ہیں، مگر اس کے برعکس عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے، وہ پرانے کو بھول کر 'نئے راگ' پر اعتبار کرلیتے ہیں اور نتیجے میں پھر وہی دیرینہ مسائل کا انبار ہوتا ہے اور ان کے ناتواں کاندھے!

لیکن اب بہت ہوگیا، 7 دہائیوں میں لوگوں کے مسائل 70 گنا بڑھ چکے ہیں، اب عوام کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔ انہیں اپنے ووٹ کی طاقت کا صحیح معنوں میں اندازہ ہونا چاہیے، عوام کو اپنے ووٹ کی عزت خود کروانا ہوگی کیونکہ ان کے ووٹ کے ذریعے بہت کچھ بدل سکتا ہے۔

 آپ یقین جانیے! 'الیکشن کا چاند' بن کر آپ کے علاقے یا محلے میں نظر آنے والے امیدوار سے بھرپور انتقام لینے کا وقت اب آگیا ہے۔ پہلے کیے گئے وعدوں اور دعووں کو یاد کریں، ان برسوں میں اپنی محرومیوں کا جائزہ لیں، درپیش مشکلات اور پریشانیوں پر ایک نگاہ ڈالیں اور انتخاب کے دن اُس نام نہاد نمائندے کو اپنے ووٹ کے ذریعے یکسر مسترد کردیں۔ بس یہی آپ کا انتقام ہوگا۔

'الیکشن کا چاند' بن کر آپ کے علاقے یا محلے میں نظر آنے والے امیدوار سے بھرپور انتقام لینے کا وقت اب آگیا ہے

عوام کو رائے دہی کے وقت کسی دباؤ، رنگ، نسل، برادری کی بنیاد کے بجائے قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر نمائندے چننا ہوں گے۔ ایسے لوگ لانے ہوں گے جو عوام الناس کی حقیقی نمائندگی کرسکیں، جن کے پاس عوامی مسائل کا ٹھوس حل موجود ہو، جن کا منشور الفاظ کے گورکھ دھندوں کے بجائے قابل عمل حکمت عملی کا غماز ہو۔

تعلیم یافتہ معاشروں میں عوام کو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ ان کا ووٹ ملک کے لیے کتنا اہم ہے اور ان کی ذرا سی غفلت کتنے بھیانک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ بلاشبہ بہترین طرز حکمرانی اور جمہوریت ہی عوام کے تمام مسائل کا حل ہے۔سسٹم کو گالیاں دینے اور اسے کوسنے کے بجائے نظام کو موثر اور فعال بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، جمہوری نظام میں جو خامیاں ہیں انہیں دور کرنے کے لیے ہر پاکستانی کا اپنا کردار ادا کرنا ناگزیر ہے، استعمال ہونے کے بجائے اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں۔ یقین کیجیے حالات ضرور بدلیں گے، بس تھوڑا خود کو بدل لیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔