11 نکاتی ایجنڈا، عمران خان کا پہلا 'سیاسی مکا' ؟

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے 29 اپریل کو لاہور کے مینار پاکستان پر جلسے کے دوران 11 نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا تھا—۔ فائل فوٹو

سیاسی میدان میں طبل جنگ بجنےکو ہے، سیاسی پہلوان اکھاڑے میں اترنے کو ہیں، وارم اپ جلسوں کا زور وشور عروج پر پہنچ رہا ہے، ایک بڑی سیاسی ٹیم کے چیمپئین اور اس کے اہم پہلوانوں کو رِنگ میں اترنے سے پہلے ہی بوجوہ ناک آؤٹ کیا جا چکا ہے اور بعض اکھاڑے میں اترنے سے پہلے ڈوپ ٹیسٹ سےگزر رہے ہیں۔

دکھائی دے رہا ہے کہ زیادہ تر مضبوط پٹھے رِنگ سے باہر بیٹھ کر ہی مقابلے کا محض نظارہ کریں گے۔ نوجوانوں کی پارٹی کے کپتان نے میدان میں اترنے سے پہلے اپنی حکمت عملی کااعلان کر دیا ہے۔ ایک پرانے سیاسی کھلاڑی کے بقول کپتان نے انتخابی معرکہ شروع ہونے سے پہلےانتخابی منشور سامنے لاکر پہلا 'سیاسی مکا' مار دیا ہے، تاہم نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے انہوں نے اپنی صفوں میں جن پرانے کھلاڑیوں کو ساتھ ملایا ہے ان میں سے زیادہ تر کی ماضی کی کارکردگی کچھ حوصلہ افزاء نہیں رہی۔

2013 کے انتخابی معرکے میں شکست کے بعد مسٹر خان کی سیاست اتار چڑھاؤ اور ان کی ذات الزامات کی زد میں ہے۔ 2014 میں 'ایمپائر کی انگلی' نہ اٹھنے سے لےکر 2018 کے سینٹ انتخابات میں 'اوپر سے احکامات' کے معاملے نے انہیں سنجیدہ حلقوں اور ووٹرز کی نظر میں کچھ کم وقعت کیا اور اسی تاثر کو ذائل کرنے کےل لیے انہوں نے پاکستان کےدل، ن لیگ کے گڑھ اور پاکستان کی یادگار پر بڑا عوامی اجتماع کرکے حکمرانوں کو کچھ پریشان بھی کردیا ہے، اب حکمرانوں کا یہ جواز مان بھی لیا جائے کہ لوگ اِدھر اُدھر سے اکٹھے کیے گئے تو یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہےکہ جو لوگ بھی آئے وہ اپنی مرضی سے آئے، لائے نہیں گئے۔

سیاسی طور پر جلسوں کو مقبولیت کا معیار کہا جاتا ہے لیکن اس کی حقیقیت یہی ہےکہ گذشتہ انتخابات میں بیلٹ باکس سے نتائج بہت مختلف برآمد ہوئے تھے۔اب کی بار یہ مکالمہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ 2011 میں مینار پاکستان پر انصافینز کا جلسہ اکیلے عمران خان کا شو تھا جبکہ 2018 کا مجمع پوری تحریک انصاف کی کاوش ٹہری ہے جو کسی حد تک کامیاب تو رہی لیکن اپنا ماضی کا ریکارڈ نہیں توڑ سکی۔ تبھی تو عدالتوں کے ہاتھوں سیاست کی قربانی دینے والے سابق وزیراعظم بھی سوشل میڈیا پر چلنے والے جملوں سےمحظوظ ہو کر بے اختیار بولے، 'شہر لاہور دا، مجمع پشور دا، تے ایجنڈا کسی ہور دا'۔

کھیل کے میدان کے کپتان نے سیاست میں کپتانی کی ٹھان کر اپنا 11 نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے، تاہم اس پر عملدرآمد کےحوالے سے اپنی حکمت عملی پیش نہیں کی۔انتخابی منشور کا پہلا نکتہ یکساں نصاب اور ایک نظام تعلیم رکھا گیا ہے، جو یقینی طور پر پاکستان کے بڑے مسئلوں میں سے ایک ہے لیکن اس کا براہ راست تعلق دولت کی غیر مساوی تقسیم ہے جس کاحل نکالنا پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

صحت اور غریبوں کے لیے بلاتفریق ہیلتھ انشورنش کی بات کی گئی لیکن اس کے لیے پہلےصحت کے بنیادی مراکز، 'پڑھے لکھے' ڈاکٹرز، اسٹاف اور معیاری اسپتالوں کی بھی ضرورت ہے۔ ٹیکس کا ادارہ اور نظام خود کرپشن کاشکار ہے، عوام 8 ہزار ارب روپے دے سکتے ہیں لیکن قومی دولت کے درست استعمال کو کیسے یقینی بنایا جائے گا۔

کرپشن کا خاتمہ خواہش ضرور ہے لیکن سیاسی درگت بنانے اور بازو مروڑنے کے ماہر ادارے نیب کو مضبوط بنانے سے پہلے ٹھیک کون کرےگا؟ سرمایہ کاری کون لائے گا جبکہ ٹکٹ کی امید میں آپ کے اردگرد بیٹھےکروڑوں اور اربوں پتی افراد کا اپنا سرمایہ باہر ہے۔

عوام کو بےروزگار اور نادار کرنے والے زمیندار، صنعت کار اور لٹھ بردار سب آپ کے ساتھ جڑ گئے ہیں، 60 فی صد پڑھے لکھے نوجوانوں کے روزگار اور غریبوں کو 50 لاکھ گھر دینےکا خواب کیسے پورا ہوگا؟ سیاحت اور زراعت کو فروغ دینے کا ارادہ خوب ہے لیکن زمین کی مساویانہ تقسیم کے لیے لینڈ ریفارمز پہلا قدم ہوتا ہے، مگر اس کا آغاز کیسےکیا جائے گا۔ وفاق کو مضبوط کرنا ضروری ہے لیکن وسائل کی تقسیم کا نیا فارمولا کیسے بنے گا۔

فاٹا کو پختونخواہ میں ضم کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے تاہم فاٹا کے غیور عوام کو برابری کی بنیاد پر حقوق کیسے ملیں گے۔ پولیس نظام کی اصلاحات بہت ضروری ہیں لیکن انہیں فرض شناس اور ایماندار بنانے کا فارمولا کیا ہوگا۔ خواتین کے حقوق اور فلاح وبہبود کا ارادہ بہتر ہے تاہم ایسے حالات میں جب انہیں عدم تحفظ کے احساس کے باعث آپ کے جلسوں میں آنے میں دقت ہو تو ان کو معاشرے میں تحفظ، جائز مقام سمیت ہر سطح پر ترجیحی مواقعوں کا ٹاسک پورا کرنے کا طریقہ کار کیونکر ممکن ہوگا۔

سیاسی نقادوں کی نظر میں آپ کا انتخابی ایجنڈا سیاسی اعلانات سے زیادہ نہیں دکھائی دے رہا، کیونکہ یہ سب تو 1973 کے متفقہ آئین کے وہ بنیادی نکات ہیں جن پر عملدرآمد یقینی بنانا ہر وفاقی وصوبائی حکومت کی آئینی وقانونی ذمہ داری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ ان گیارہ نکات میں وطن عزیز کو کئی دہائیوں سے درپیش انتہاپسندی و دہشت گردی سے نمٹنے کا کوئی پلان نہیں دیا گیا، عالمی حالات بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی حکمت عملی کے بارے میں ذکر بھی شامل نہیں کیا گیا، اس کے علاوہ موجودہ بدترین عالمی دباؤ اور دشمن کی چالوں سے نمٹنے کے لیے خارجہ پالیسی کے بارے بھی کچھ نہیں بتایا گیا۔

حقیقت احوال ہے کہ 80 سے 90 فیصد سیاسی جماعتیں وفاق اور صوبوں میں حکمران ہیں،آج پانچ سال مکمل ہونے پر کیا آپ میں سے کوئی ایک بھی ہے جو اپنی ان آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بارے میں سچ بولے اور حقائق سامنے لائے گا۔شاید مشکل ہے کیونکہ جہاں اقتدار کی غلام گردشوں کے مقیم مال اکٹھا کرنے کی ہوس میں غیر ملک سے وفاداری کا حلف تک اٹھالیتے ہوں، ان سے عوام اپنے اچھے کی توقع کیسے اور کیونکر کرسکتے ہیں۔

دراصل اصول وضوابط اور آئینی ذمہ داریاں محض گفت گو، نعروں اور تقریروں تک محدود ہیں اور ذاتی ایجنڈا قومی ایجنڈا ہے۔ انہی غلطیوں اور کوتاہیوں سے حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھتے ہیں، ادارہ جاتی ویکیوم بنتا ہے جو طاقتوروں کو جواز اور طاقت فراہم کرتا ہے، وہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں تو اس کو مداخلت کہا جاتا ہے۔ پھر یہی المیہ جب نااہلی کی صورت وقوع پذیر ہوتا ہے تو 'نیک صفتوں' کی تلاش کو 'سیاسی انجینئرنگ' کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ہم کب تک عوامی طاقت کے چھن جانے اور محرومیوں کا رونا روئیں گے۔ 

ایک اور جمہوری دور مکمل ہو رہا ہے، آئیں اپنی اپنی پرفارمنس شیٹ عوام کے سامنے رکھیں۔ سیاسی میدان کا بڑا پہلوان ن لیگ کو 'کیوں نکالا' اور 'ووٹ کو عزت دو' کے نعرے سے نکل کر ووٹر کو عزت دینے کا ثبوت دینا ہوگا۔ سیاسی مخالفین کی نظر میں پیپلز پارٹی نے سندھ کو افریقہ کا روانڈا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اسے کم از کم روٹی کپڑا اور مکان کےنعرے کا جواب تو دینا ہوگا۔ ایک مرتبہ پھر پانچ سال اقتدار کاجھولا جھول کر متحد ہونے والی جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی کو بھی 'حرم کی پاسبانی' کی 'مشکلات' کا حساب دینا ہوگا۔

بلاشبہ مسٹر خان کے روز نئے کرتب خوشنما ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ تبدیلی کے انتظار میں عوام کے اعتبار کا موسم گزر جائے۔کیا ہی اچھا ہو کہ خان صاحب 11 پرانے آئینی نکات کی بجائے مقتدر صوبے کی کارکردگی کو مثال بناکر پیش کردیں، کم از کم پانچ شعبوں کی کارکردگی کو 'فیکٹس اینڈ فگرز' کے ساتھ 'کلئیر اینڈ پریزنٹ' انداز میں عوام کے سامنے لاکر 'دشمن' کے سینوں پر مونگ دل دیں۔

نمبر ایک :دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صوبے کی پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پرفارمنس

نمبر 2: بجلی کی قلت دہشت گردی کے بعد دوسرا سنگین مسلہ ہے، پہاڑی اور قدرتی ڈھلوانوں سے فائدہ اٹھا کر بجلی کے لگائے گئے منصوبے اور اب تک کی پیداوار

نمبر 3:کرپشن کےخاتمے کے نیب کے صوبائی محکمے سمیت دیگر اداروں کے بےلاگ احتساب کی قائم کردہ مثالیں اور پکڑے گئے اسکینڈلز

نمبر 4: تعلیم اور صحت کے شعبے میں وفاق کے اعلان سے ہٹ کر اضافی صوبائی بجٹ سے لائی جانے والی انقلابی تبدیلیاں

نمبر5: ایک ارب لگانے کے تاریخی اقدام کی تمام ویڈیوز سمیت زمینی حقائق 

خان صاحب اپنی کارکردگی کے یہ حقائق منظرعام پر لانے کی یہ ایکسرسائز نہ صرف مخالفین کی نیندیں اڑانے کے لیے کافی ہوگی بلکہ آئندہ انتخابات میں آپ کو ناقابل شکست اور بڑے اقتدار کی منزل پانے کے خواب کی تعبیر بن سکتی ہے۔ وطن عزیز میں وقت پر عام انتخابات ہونا ضروری ہیں لیکن اس کے لیے سیاسی انجنئیرنگ کے خدشات کا بھی خاتمہ ضروری ہے اور اس مقصد کی غرض سے جمہوریت کی سربلندی کے لیے عزم مصمم کے ساتھ کھڑے آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان ازخود نوٹس لےکر اس غیرجمہوری سوچ اور الزامات کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔

پہلی مرتبہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالے گئےتو نہ صرف عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد بحال ہوگا بلکہ جمہوریت ناقابل تسخیر ہوجائےگی، تاہم اس سے پہلے تسلی کرنا ضروری ہے کہ سیاسی میدان میں اصلی پہلوان اتریں اور اکھاڑے میں حقیقی لڑائی ہو ورنہ اس کو 'فیک فائٹ' کہا جائے گا۔۔!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔