منگلا ڈیم سے منسلک میدان اور ماضی کی چند نشانیاں

موسم سرما کے آغاز سے منگلا جھیل کی گہرائیوں میں پنہاں ماضی کی حسین اور تلخ یادیں کچھ عرصے کیلئے ایک بار پھر دنیا کے سامنے ابھر آتی ہیں۔

سوکھے ہوئے درخت، سرسبز میدان، چہار اطراف پہاڑ اور ان سے پرے صاف موسم میں نظر آنے والی پیر پنجل کی برف پوش چوٹیاں -

یہ منظر ذہن کے کسی گوشے میں بھی آ جائے تو تازگی کا احساس خود بخود آپ کو چھو جاتا ہے -

لیکن یہ خوبصورت علاقہ سال میں تقریباً آٹھ ماہ زیر آب رہتا ہے۔

موسم سرما کے آغاز سے منگلا جھیل میں جب پانی کی سطح کم ہونے لگتی ہے تو جھیل کی گہرائیوں میں پنہاں ماضی کی حسین اور تلخ یادیں کچھ عرصے کے لیے ایک بار پھر دنیا کے سامنے ابھر آتی ہیں-

منگلا جھیل کے وسیح و عریض میدان—۔ فوٹو/ مصنف
یہ سرسبز و شاداب علاقہ سال کے چھ سے آٹھ مہینے پانی کے اندر ڈوبا رہتا ہے—۔ فوٹو/ مصنف
گندم اور سرسوں کی لہراتی فصلیں ان میدانوں کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتی ہیں—۔ فوٹو/ مصنف

60 کی دہائی میں بننے والے منگلا ڈیم سے جہاں ایک عہد روشن ہوا، وہیں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی تکالیف بھی برداشت کیں-

اس وسیح میدان میں چند نشانیاں اب بھی موجود ہیں جو ماضی کے بند دریچوں کو کھولنے کے کام آتی ہیں- کلروڑی مسجد، میاں محمّد بخش کے روحانی استاد سائیں غلام محمّد کا مزار اور ایک پرانا مندر جو تقسیم ہندوستان کے وقت پرانے ڈڈیال شہر کا مرکز ہوا کرتا تھا۔

سالوں پرانی مسجد کلروڑی—۔ فوٹو/ مصنف
جگہ جگہ قبروں کے آثار پانی کی سطح کم ہونے کے بعد ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں—۔ فوٹو/ مصنف

ڈڈیال ضلع میرپور کی تحصیل اور ایک خوبصورت علاقہ ہے- 3 اطراف سے پانی میں گھرا ہوا اور چوتھی جانب پہاڑ پر مشتمل یہ علاقہ اندرہل کہلاتا ہے- اس کے ایک طرف دریائے جہلم تو دوسری طرف پونچھ دریا بہتا ہے اور تیسری طرف منگلا جھیل اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔

پانی کی سطح میں کمی کے بعد اس علاقے میں گھومتے ہوئے جگہ جگہ قبروں کے نشانات نظر آتے ہیں- ان پگڈنڈیوں پہ چلتے ہوئے خیالات اُن لوگوں کی طرف ضرور جاتے ہیں جو یہاں آباد رہے ہوں گے-

یہ رستے کبھی پانیوں میں ڈوبے ہوتے ہیں—۔ فوٹو/ مصنف
یہ رستے کبھی پانیوں میں ڈوبے ہوتے ہیں—۔ فوٹو/ مصنف
شام کا ایک سہانا منظر—۔ فوٹو/ مصنف

انہی رستوں پر اپنے بیلوں کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا کوئی بوڑھا کسان شام کو گھر جاتا ہوگا۔ یہ جو کھنڈرات نظر آتے ہیں کبھی یہاں پانچ وقت اذان کی آواز گونجتی ہوگی - کسی درخت کے نیچے بیھٹے لوگ میاں محمّد بخش کی سیف الملوک سنتے ہوں گے۔

مندر کی گھنٹیاں صبح شام بجتی ہوں گی، کیسا منظر ہوگا! آج کے انسان کو شاید ماضی کے اُس دور کی سادہ مگر پرسکون زندگی میں کشش محسوس نہ ہوتی ہو۔

مندر کی عمارت جس کی ایک منزل پانی کے اندر دھنس چکی ہے—۔ فوٹو/ مصنف
مندر کی عمارت سے نظر آنے والا باہر کا منظر—۔ فوٹو/ مصنف


صاف موسم میں مقبوضہ کشمیر میں واقع پیرپنجل کا پہاڑی سلسلہ بھی نظر آتا ہے—۔ فوٹو/ مصنف

کلروڑی مسجد کے بارے میں کوئی مستند حوالہ تو نہیں ہے لیکن یہ مسجد مغلیہ دور میں تعمیر کی گئی تھی- مسجد سے تھوڑے ہی فاصلے پر سائیں غلام محمد کا مزار اقدس ہے جو میاں محمد بخش کے پیر ومرشد تھے-

سائیں غلام محمد اپنے مرشد بابا بدوح شاہ ابدال کے پہلو میں دفن ہیں- علاقہ اندرہل پر بینس راجپوت قبیلے نے کئی سال حکومت کی، سائیں غلام محمد اس قبیلے کے عظیم چشم و چراغ تھے جو خداوند تعالیٰ کی حمد و ثناء و عشق رسول میں غرق ہو کر اپنی قیمتی زمینوں کے وسیع سلسلے پر کاشتکاری و زمینداری سے الگ ہو کر یاد الٰہی میں مشغول ہو گئے تھے، حتیٰ کہ انہوں نے تاریخی مسجد کلروڑی کی مرمت کے لیے مہاراجہ کشمیر کی دولت کو بھی ٹھوکر مار دی تھی-

پلیر شریف کا مزار جہاں میاں محمّد بخش کے روحانی مرشد سین غلام محمّد اور ان کے استاد سرکار بدوح آرام فرما ہیں—۔ فوٹو/ مصنف

میاں محمد بخش نے سیف الملوک میں اپنے مرشد کے بارے میں یہ اشعار بھی کہے

مرد بھلیرا مرشد میرا شاہ غلام محمد

اہل شریعت اہل طریقت وانگ امام محمد

پوٹھ شیر کی جانب سے منگلا جھیل کے کنارے کی طرف جائیں تو دھمالی سیداں کا قبرستان آتا ہے، جہاں باوا بہار شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی آخری آرام گاہ موجود ہے، جنہوں نے 1800 میں اس دنیا سے پردہ فرمایا۔

میدان کے درمیان میں علم عبّاس اب بھی اسی بلندی کے ساتھ ایستادہ ہے جسے کئی سال پہلے یہاں پر موجود قبروں کے ساتھ نصب کیا گیا تھا- پانی کی سطح کے بلند ہونے کے بعد بھی یہ علم دور سے ٹمٹماتے ستارے کی مانند دھندلا سا نظر آتا ہے-

میدان کے درمیان میں علم عبّاس بلندی کے ساتھ ایستادہ ہے—۔ فوٹو/ مصنف
نیلگوں آسمان اور سبز میدان کا ایک حسین تال میل—۔ فوٹو/ مصنف

پلیر شریف سے تھوڑے ہی فاصلے پر چومکھ پتن کا گاؤں آباد ہوا کرتا تھا، لیکن اب یہاں صرف ایک مندر کے کھنڈرات ہیں- کہا جاتا ہے کہ یہ عمارت 2 منزلہ ہوا کرتی تھی لیکن سال کا بیشتر وقت منگلا جھیل کے پانی میں رہنے کی وجہ سے اب اس کی صرف ایک منزل زمین کے برابر رہ گئی ہے-

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کی یہ یادیں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی جائیں گی۔


فیصل فاروق اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہیں، جنہیں سیاحت اور فوٹوگرافی سے خصوصی لگاؤ ہے۔