العزیزیہ ریفرنس: نیب کے گواہ واجد ضیاء کا بیان تیسرے روز بھی مکمل نہ ہوسکا

نواز شریف کیخلاف العزیزیہ ریفرنس میں واجد ضیاء نیب کے آخری گواہ ہیں۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے آخری گواہ واجد ضیاء کا بیان تیسرے روز بھی مکمل ہوسکا اور سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کی، اس موقع پر نامزد ملزم عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ 

استغاثہ کے آخری گواہ واجد ضیاء نے مسلسل تیسرے روز العزیزیہ ریفرنس میں اپنا بیان قلمبند کرایا اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ کل ہونے والی سماعت کے دوران ان کا بیان مکمل ہوجائے گا۔ 

نیب کے گواہ کا بیان مکمل ہونے کے بعد نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث واجد ضیاء پر جرح کریں گے۔

سپریم کورٹ میں مریم، حسن اور حسین نواز کی طرف سے جعلی دستاویزات دی گئیں، واجد ضیاء

واجد ضیاء نے آج دوران سماعت اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ گلف اسٹیل ملز کی فروخت سے متعلق شریف خاندان کے دعوے کی تصدیق کے لیے خط لکھا جب کہ یو اے ای نے گلف اسٹیل ملز کے 25 فیصد شیئرز کی فروخت کا دعوی غلط قرار دیا۔

واجد ضیاء کے مطابق گلف اسٹیل کی فروخت سے 12 ملین درہم کی ٹرانزیکشن کا کوئی ریکارڈ نہیں ملا اور دبئی کورٹ سسٹم میں 1980 کے معاہدے کی نوٹرائزیشن کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ملا۔

نیب کے گواہ نے کہا کہ نتیجہ اخذ کیا کہ سپریم کورٹ میں مریم، حسن اور حسین نواز کی طرف سے جعلی دستاویزات دی گئیں، آہلی اسٹیل ملز کے اسکریپ کی تفصیل کا حسین نواز کا دعویٰ بھی جھوٹا نکلا۔ 

واجد ضیاء کے مطابق حسین نواز نے کہا کہ 50 سے 60 ٹرکوں میں فیکٹری کا اسکریپ ٹرانسفر کیا گیا اور اس حوالے سے انہوں نے غلط بیانی کی۔

نواز شریف کے وکیل نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ واجد ضیاء اپنا تجزیہ اور رائے بطور بیان ریکارڈ کروا رہے ہیں اور وہ جن پراپرٹیز کا ذکر کر رہے ہیں وہ اس کیس میں غیر متعلقہ ہے۔

خواجہ حارث کے اعتراض پر پراسیکیوٹر نیب نے مخالفت کی اور کہا کہ خواجہ حارث بیان لکھوا لیں ہم جرح کر لیں گے۔

واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے پوچھے گئے سوالات اور اخذ نتیجہ جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ بنیادی طور پرانویسٹی گیشن رپورٹ ہے جو قانون شہادت کے تحت قابل قبول نہیں۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں ہوسکتی، سپریم کورٹ نے 28 جولائی کے فیصلے میں نیب کو ریفرنس تیار کرنے کا حکم دیا جب کہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں کہ تحقیقاتی رپورٹ قابل قبول شہادت نہیں۔

یاد رہے کہ گیارہ مئی کو ہونے والی گزشتہ سماعت پر واجد ضیاء نے نواز شریف کی جانب سے مریم نواز کو منتقل کی جانے والی رقوم کی تفصیلات عدالت میں پیش کی تھیں۔

کیس کا پس منظر

سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔

نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا۔

العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔

نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔

جب کہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔

مزید خبریں :