گزری اپنائیت کا المیہ!

ملک سے باہر رہنے اور پھر لوٹ کر آنے والا انسان نہ اِدھر کا رہتا ہے نہ اُدھر کا۔ پرایا دیس اپنا بنتا نہیں اور اپنا ملک اپنا رہتا نہیں—۔فوٹو/ بشکریہ دی ٹریول میگزین

المیے کی یہ خاصیت ہے کہ یہ بے وفا نہیں ہوتا، کسی کو چھوڑتا نہیں بلکہ ساتھ بن جاتا ہے۔ بھلے کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب، سادھو ہو یا شاہ، عمر رسیدہ ماں ہو یا کمسن بیٹی، المیہ ہر کسی کا ہوتا ہے۔ یہ المیہ ہی ہے جو انسان کا ساتھ نبھاتا ہے۔ اسے اکیلا محسوس تو ہونے دیتا ہے پر اکیلا چھوڑتا نہیں۔ انسان ہی ناشکرا ہے جو شاید اپنے اس سچے ساتھی کی قدر نہیں کر پاتا۔

باوجود ہزار تنہائی کے ایک یہی پکا دوست ہے جو ہمارے ساتھ ڈٹا کھڑا ہے۔ کہنے کو تین سال کوئی ایسی طویل مدت نہیں، لیکن زندگی جینے کی بات ہے صاحب۔ بعض دفعہ ایک پل ہی بیت ہوتا ہے۔ ہم 3 سال اپنے ملک سے دور رہے ہیں۔ چکر تو لگتا رہتا تھا لیکن دو کشتیوں کی سواری تو نصیب بن ہی چکی تھی۔ دبئی میں دل نہیں لگتا تھا، بس ہر وقت ایک اوپرے پن کا احساس بے چین کیے رکھتا تھا۔

یوں تو یہاں ہر قسم کا آرام حاصل تھا۔ یہ ڈر نہیں تھا کہ اگر دوپٹہ سرک گیا تو اردگرد کی نظریں چیر ڈالیں گی۔ بازار جاتے ہوئے موبائل فون کو سات پردوں میں نہیں چھپانا پڑتا تھا۔ رات کو دیر سے گھر آتے ہوئے کسی قسم کا خوف نہیں تھا۔ کبھی یہ دھڑکا نہیں لگا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ کہنے کو صحرا تھا لیکن چار دیواری یوں یخ بستہ رہتی تھی کہ بھلے جون کے مہینے میں بھی پشمینہ کی چادر اوڑھ لو۔

بجلی جانا کیا ہوتا ہے؟ ہم کیا معلوم، لیکن پھر بھی ایک بے کلی تھی۔ کچھ اپنا نہیں لگتا تھا۔ حالانکہ اردگرد بہت سے پاکستانی بستے تھے لیکن وہ بھی اپنے نہیں لگتے تھے۔ انسانوں سے بھی فلک بوس شیشے کی عمارتوں والی فیلنگ آتی تھی۔ 3 سال بِتانے کے بعد جب ہمیں واپس لوٹنا تھا تو یقین جانیے سوائے ایک سہیلی کو چھوڑنے کے سوا غم کوئی نہ تھا۔ اپنے ملک آنے کے خیال سے ہی دل بلیوں اچھل رہا تھا۔

ہزار آشائیں تھیں۔ اپنے لوگوں میں کھل کر ہنسیں بولیں گے۔ روز ناشتے میں گوگے کے نان چنے کھائیں گے۔ ماں کے ساتھ پوری رات جاگ کر ددھیال کے قصے چھیڑیں گے۔ اپنی مرضی سے کام کریں گے۔ کھل کر بولیں گے کہ اپنا ملک تو جمہوری ہے۔ سلطنت کی پابندیوں سے تو جان چھٹے گی۔ دھڑلے سے سینہ اکڑا کر گھومیں گے۔ سب رشتے داروں سے مہمان نوازی کے مزے بٹوریں گے۔ دبئی کی مصنوعی زندگی سے جان چھٹنےکی خوشی بہت تھی۔ اس اوپرے پن سے جان چھٹنے کا بھی اپنا ہی مزہ ہوگا۔ سانس تو کھل کر لیں گے۔ اس بناوٹی زندگی سے تو جان چھٹے گی۔ میلے ٹھیلوں پر سموسے کھائیں گے۔ ریڑھی پر کھڑے ہو کر املی آلو بخارےکا شربت پئیں گے۔

وطن واپسی کے بعد پہلا کام تو یہ کیا کہ نیند پوری کی۔ دوسرا کام سب عزیزوں رشتے داروں سے ملنا تھا۔ یہیں اپنے پکے دوست 'المیے' سے بھی ملاقات ہو گئی، جس نے ہماری آنکھیں کھولیں کہ سب ویسا نہیں رہا۔ سب بدل گیا ہے۔ جس تلاش میں ہم اپنے ملک آئے ہیں وہ ادھوری ہی رہے گی۔ وقت نے ہر چیز کا دھارا بدل دیا۔ جس مصنوعی زندگی سے بھاگ کر یہاں آئے تھے اس نے یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا۔ سب پہلے جیسا نہیں رہا۔ یہی المیہ ہے ملک سے باہر رہنے والوں کا اور پھر لوٹنے والوں کا۔ ہمیں لگتا ہے کہ جو چائے کی دھواں اڑاتی پیالی تپائی پر چھوڑ کر گئے تھے وہ یونہی ہو گی۔ ہم آئیں گے اور آتے ہی چسکیاں لینے لگیں گے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ چائے ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔

یہی المیہ ہے ملک سے باہر رہنے کا، پھر لوٹ کر آنے کا۔ انسان نہ اِدھر کا رہتا ہے نہ اُدھر کا۔ پرایا دیس اپنا بنتا نہیں اور اپنا ملک اپنا رہتا نہیں۔ نہ خدا ملتا ہے نہ وصال صنم، بس تپائی پر دھری چائے کی پیالی ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔۔!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔