‘میرے خلاف مقدمات کی وجہ مشرف کو سنگین غداری کیس میں کٹہرے میں لانا ہے‘


اسلام آباد: سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ 2014کے دھرنوں کا مقصد مجھے دباؤ میں لانا تھا اور میرے خلاف جھوٹے، بے بنیاداور خودساختہ مقدمات کی وجہ جنرل مشرف کو سنگین غداری کیس میں کٹہرے میں لانا ہے۔

احتساب عدالت میں پیشی کے بعد پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ آمریتوں نے گہرے زخم لگائے ہیں، میں مسلح افواج کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، فوج کی کمزوری ملکی دفاع کی کمزوری ہوتی ہے، قابل فخر ہیں وہ بہادر سپوت جو سرحدوں پر فرائض انجام دے رہے ہیں، سرحدوں پر ڈٹے ہوئے سپوت ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کردیتے ہیں۔

آئین شکنی کی قیمت پوری مسلح افواج کو ادا کرنا پڑتی ہے: نوازشریف

انہوں نے کہا کہ آئین شکنی یا اقتدار پر قبضے کا فیصلہ ایک یا دو جرنیل کرتے ہیں اس کی لذتیں مٹھی بھر جرنیلوں کے حصے میں آتی ہیں لیکن اس کی قیمت پوری مسلح افواج کو ادا کرنا پڑتی ہے۔

نوازشریف کا کہنا تھاکہ مشرف غداری کیس قائم کرتے ہی مشکلات اور دباؤ بڑھادیا گیا، مجھے دھمکی نما مشورہ دیا گیا کہ بھاری پتھر اٹھانے کا ارادہ ترک کردو، بذریعہ زرداری پیغام دیاکہ مشرف کےدوسرےمارشل لاء کو پارلیمانی توثیق دی جائے، میں نے مشرف کے دوسرے مارشل لاء کو پارلیمانی توثیق دینے سے انکار کیا، آصف زرداری نے مصلحت سے کام لینے کا کہا، وہ میرے پاس ایک قومی لیڈر کےپاس آئے۔

انہوں نے کہاکہ مشرف کےخلاف مقدمہ شروع ہوتے ہی اندازہ ہوگیا کہ آمر کو کٹہرے میں لانا کتنا مشکل ہوتاہے، میرے خلاف جھوٹے، بے بنیاداور خودساختہ مقدمات کی وجہ جنرل مشرف کو سنگین غداری کیس میں کٹہرے میں لانا ہے۔

سارے ہتھیار اہل سیاست کے لیے بنے ہیں: سابق وزیراعظم

ان کاکہنا تھاکہ سارے ہتھیار اہل سیاست کے لیے بنے ہیں، جب بات فوجی آمروں کے خلاف آئے تو فولاد موم بن جاتی ہے، جنوری 2014 میں مشرف عدالت کے لیے نکلا توطے شدہ منصوبے کے تحت اسپتال پہنچ گیا، پرویز مشرف پراسرار بیماری کا بہانہ بناکر دور بیٹھا رہا، انصاف کےمنصب پر بیٹھےجج مشرف کو ایک گھنٹے کے لیے بھی جیل نہ بھجواسکے۔

پاکستان کے عوام مجھ سے محبت کرتے ہیں، مجھے ووٹ دیتے ہیں اور وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھاتے ہیں اس لیے میں نامطلوب شخص قرار پایا، نواز شریف—رائٹرز فوٹو۔

سابق وزیراعظم نےکہا کہ 2014کے دھرنوں کا مقصد مجھے دباؤ میں لانا تھا، مجھ پر لشکرکشی کرکے پیغام دینا مقصود تھا کہ مشرف غداری کیس کو چلانا اتنا آسان نہیں ہے، لشکر کشی کرکےپیغام پہنچایا گیا کہ مستعفی ہوجاؤ یا طویل رخصت پر چلے جاؤ، میرے راستے پر شرپسند عناصر بٹھادیے گئے، منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ میں دباؤ میں آجاؤں گا، کہا گیا وزیراعظم کے گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹتے ہوئے باہر لائیں گے، مقصدتھا مجھے پی ایم ہاؤس سےنکال دیں، مشرف کے خلاف کارروائی آگے نہ بڑھے، پی ٹی وی، پارلیمنٹ، وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر فسادی عناصر سےکچھ محفوظ نہ رہا، امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے، کون تھا وہ امپائر؟ وہ جوکوئی بھی تھا اس کی پشت پناہی دھرنوں کو حاصل تھی۔

مجھے عمر بھر کیلئے نااہل قرار دینا واحد حل سمجھ لیا گیا، نوازشریف

نوازشریف کا کہنا تھاکہ مجھے منصب اورپارٹی صدارت سے ہٹانے اور عمر بھر کےلیے نااہل قرار دینا واحد حل سمجھ لیا گیا، طویل رخصت کا مطالبہ اس تاثر کی بنیاد پرتھا کہ نواز شریف کو راستے سے ہٹادیا گیا، پاناما میں عالمی لیڈرز کا نام بھی تھا،کتنے سربراہان کو معزول کیا گیا؟ پاکستان میں یہ کارروائی جس شخص کے خلاف ہوئی اس کانام نواز شریف ہے، نواز شریف کا نام پاناما میں نہیں تھا۔ 

میاں نوازشریف نےکہا کہ میں نے قوم کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا، جب بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا پتا چلا تو بلا تاخیر اس وقت کے آرمی چیف اور حکام کوہدایت دی کہ 17دن میں دھماکوں کی تیاری کریں، ایٹمی دھماکے نہ کرنے پرمجھے 5ارب ڈالرکا لالچ دیا گیا، آج بھی وہ ٹیپ دفتر خارجہ میں موجود ہوں گی، میں نے وہی کیا جو پاکستان کے وقار اور مفاد میں تھا، پاکستان کی عزت اربوں کھربوں سے زیادہ عزیز تھی، ایٹمی دھماکے نہ کیے جاتے تو بھارت کی عسکری بالادستی قائم ہوجاتی۔

انہوں نےکہاکہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ قوم کو وہ پاکستان دیا جو زندگی کےہر شعبے میں 2013 کے پاکستان کے مقابلے میں زیادہ روشن مستحکم توانا تھا، یہ اس ملک کے دانشوروں اور مبصرین نے دیکھنا ہےکہ 28 جولائی کے فیصلے نے اس پاکستان اور عوام کو کیا دیا، معیشت، توانائی اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کتنا نقصان پہنچایا، ملک میں سیاسی عدم استحکام کو کتنی ہوا دی، ممکن ہے مجھے حکومت سے بے دخل کرنے سے کچھ لوگوں کی تسکین ہوگئی ہے لیکن کوئی بتا سکتا ہےکہ ملک کی جمہوریت، آئینی نظام اور احترام کو کیا ملا۔

 میں نے سرجھکا کرنوکری کرنے سے انکار کردیا: قائد مسلم لیگ (ن)

نوازشریف کا کہنا تھاکہ میں نے سرجھکا کرنوکری کرنے سے انکار کردیا، میں نے اپنے گھر کی خبر لینے اور حالات ٹھیک کرنے پر اصرار کیا، میں نے خارجہ پالیسی کوقومی مفاد کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی، مجھے ہائی جیکر کہیں، مجھے سسیلین مافیا کہیں، مجھے گاڈ فادر کہیں، مجھے غدار کہیں، فرق نہیں پڑتا، میں پاکستان کا بیٹا ہوں مجھے اس مٹی کا ایک ایک ذرہ پیارا ہے، میرے آباو اجداد ہجرت کرکے یہاں آئے، میں کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا اپنی توہین سمجھتاہوں۔

سابق وزیراعظم نےکہا کہ چونکہ پاکستان کے عوام مجھ سے محبت کرتے ہیں، مجھے ووٹ دیتے ہیں اور وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھاتے ہیں اس لیے میں نامطلوب شخص قرار پایا، کبھی آئینی معیاد پوری نہیں کرنے دی گئی، سبق سکھانے کے لیے قید کیا گیا، کال کوٹھریوں میں ڈال دیا گیا، ہائی جیکر قرار دے کر عمر قید کی سزا دی گئی، خطرناک مجرموں کی طرح ہتھکڑی ڈال کر جہاز کی سیٹ سے باندھ دیا گیا، ہر ممکن تذلیل کی گئی، ملک سے جلا وطن کیا گیا، جائیدادیں ضبط کی گئیں اور گھروں پر قبضہ جمالیاگیا، جب ساری پابندیا توڑ کر واپس آیا تو ہوائی اڈے سے ہی ایک بار پھر ملک بدر کردیا گیا۔

نوازشریف کا کہنا تھاکہ کیا آج سے 19 سال قبل یہ سب کچھ پاناما کی وجہ سے ہورہا تھا، کیا میرے ساتھ یہ سلوک لندن فلیٹ کی وجہ سے کیا جارہا تھا، نہیں جناب والا، 19، 20 سال پہلے بھی قصور وہی تھا جو آج ہے، نہ اس وقت کسی پاناما کا وجود تھا نہ آج کسی پاناما کا وجود ہے، اس وقت بھی میں عوام کی حاکمیت اور حقیقی جمہوریت کی بات کررہا تھا اور آج بھی یہی کہہ رہاہوں، اس وقت بھی کہا تھا کہ داخلی و خارجی پالیسیوں کی باگ ڈور متنخب عوام کے ہاتھ میں ہونی چاہیے، آج بھی کہتا ہوں فیصلے وہی کریں جنہیں عوام نے فیصلے کا اختیار دیا۔

مائنس ون کا اصول طے پاجائے تو اقامہ جیسابہانہ بھی کافی ہوتا ہے: نوازشریف

انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے دفاع میں شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیں، میں نے اپنے اقتدار اور ذات کو خطرے میں ڈالا کہ ڈکٹیٹر کو اپنے کیے کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔

نوازشریف نےکہا کہ جو کچھ ہوا سب قوم کے سامنے ہے، اب یہ باتیں ڈھکا چھپا راز نہیں ہیں، نااہلی، پارٹی صدارت سے ہٹانے کے اسباب ومحرکات کوقوم بھی اچھی طرح جانتی ہے، مجھے مقدمات میں کیوں الجھایا گیا، قوم اور ملک کا مفاد مزیدکہنے کی اجازت نہیں دیتا، جب فیصلے پہلے ہوجائیں توجوازکے لیے حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں، مائنس ون کا اصول طے پاجائے تو اقامہ جیسابہانہ بھی بہت کافی ہوتا ہے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ ہے میرے اصل جرائم کا خلاصہ، اس طرح کے جرائم اور مجرم پاکستانی تاریخ میں جابجا ملیں گے، کاش آج آپ یہاں لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی روح کوطلب کرسکتے، ان سے پوچھ سکتےکہ آپ کےساتھ کیا ہوا، کاش آپ سینئر ججز کو بلاکر پوچھ سکتے کہ وہ کیوں ہرمارشل لاء کو خوش آمدید کہتے رہے، کاش آج آپ ایک زندہ جرنیل کو بلاکر پوچھ سکتے کہ اس نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیوں کیا؟

نوازشریف نے کہاکہ عدالتی فیصلے کےحوالے سے کچھ نہیں کہنا چاہتا، فیصلے میں شروع سے آخر تک بدعنوانی کسی کو نظر نہیں آئی، نا انصافی ہر ایک کو نظر آرہی ہے، گواہ میرے خلاف ادنیٰ ثبوت بھی پیش نہ کرسکے، عملاً میرے مؤقف کی تائید ہوئی، استغاثہ میرے خلاف کیس ثابت نہیں کرسکا، مجھے اپنے دفاع میں شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیں، اب تک ریفرنسز کی حقیقت آپ پرکھل چکی ہوگی۔

سابق وزیراعظم نے آج ایون فیلڈ ریفرنس کے دوران عدالت کی جانب سے پوچھے گئے تمام 128 سوالات کے جواب مکمل کیے۔

مزید خبریں :