ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے چھٹے روز بھی دلائل

سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کے پاناما فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کر رکھے ہیں—۔فائل فوٹو

اسلام آباد: شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت میں ہو رہی ہے، جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل چھٹے روز بھی جاری ہیں۔

 احتساب عدالت کے جج محمد بشیر شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں۔

گزشتہ روز دلائل دیتے ہوئے خواجہ حارث نے کہا تھا کہ پاناما جے آئی ٹی کی رپورٹ اور تفتیشی افسر کی رائے ناقابل قبول شواہد ہے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کو حاضری سے مزید تین دن کا استثنیٰ دے دیا تھا۔

آج سماعت کے آغاز پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کا بیان ہے کہ لندن فلیٹس شریف فیملی کے ہیں، تفتیشی افسر کہتا ہے کہ نواز شریف بےنامی دار اور اصل مالک ہے۔

اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ خواجہ حارث بہت زیادہ وقت لے رہے ہیں، مجھے جلد حتمی دلائل مکمل کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔

جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ 'میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، پھر بھی عدالت میں پیش ہو رہا ہوں، میں جلد حتمی دلائل مکمل کرلوں گا'۔

دلائل کے دوران خواجہ حارث نے کہا کہ استغاثہ نے چارٹ پیش کیا مگر وہ گواہ پیش نہیں کیا، جس نےچارٹ تیار کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جن شواہد کو نواز شریف کے خلاف استعمال کرنا ہے، پھر اُس گواہ پر جرح کا موقع بھی ملنا چاہیے لیکن اب یہ چارٹ نواز شریف کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ گواہ سدرہ منصور بھی کہہ چکی ہیں کہ انہوں نے یہ خود تیار نہیں کیا بلکہ آڈٹ رپورٹ سے حاصل کیا۔

دلائل کے دوران خواجہ حارث نے کہا کہ موزیک فونسیکا حکومتی لاء فرم نہیں بلکہ ایک پرائیوٹ فرم ہے، جےآئی ٹی نے موزیک فونسیکا سے نواز شریف کے مالک یا بینفشل اونر شپ کا نہیں پوچھا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جےآئی ٹی نے شاید اس لیے نہیں پوچھا کہ وہ پہلے ہی جانتے تھے۔

خواجہ حارث نے مزید کہا کہ یہ نہیں معلوم کہ برٹش ورجن آئی لینڈ (بی وی آئی) کے خط پاکستان کیسے پہنچے؟ خط اچانک نمودار ہوئے اور جےآئی ٹی نے تصدیق کے لیے بھیج دیئے۔

انہوں نے نکتہ اٹھایا کہ یہ بات ریکارڈ پر نہیں کہ خط جےآئی ٹی کی کسٹڈی میں کیسے آئے۔

ساتھ ہی خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا 2012 میں بی وی آئی کو پاکستان سےکوئی خط گیا، جس کا جواب آیا ہو؟ پاکستان میں اُس وقت یہ خطوط کس کی کسٹڈی میں تھے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ ایسا کچھ ریکارڈ پر نہیں کہ جےآئی ٹی نے یہ خط کیسے حاصل کیے لیکن نواز شریف کے بینیفشل اونر ہونے کا معاملہ ان خطوط سے اخذ کیا جا رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی اے، بی وی آئی اور موزیک فونسیکا نے بھی نہیں کہا کہ نواز شریف بے نامی دار یا بینیفشل اونر ہیں۔

خواجہ حارث نے سماعت کے دوران فنانشل انویسٹی گیشن ایکٹ 2017 کی کاپی بھی عدالت میں پیش کی اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایکٹ میں سیل (Seal) سے متعلق واضح طور پر لکھا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بی وی آئی اور ایف آئی  اے کے خط پر نہ مہر ہے اور نہ دستخط ہیں، مہر لگی ہو اور دستخط ہوں تو پھر بھی ایکٹ کے مطابق اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے۔

خواجہ حارث نے اعتراض اٹھایا کہ بی وی آئی، ایف آئی اے کے 8 جولائی 2017 کے خط کی تصدیق کس نے کی؟ جس نےبھی تصدیق کی، اس شخص کاعہدہ ہے اور نہ ہی دستخط اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ نوٹری کون ہے۔

انہوں نے کہا کہ موزیک فونسیکا میں جس بات کی بنیاد پر باتیں کر رہے ہیں، وہ کہاں ہے؟ 

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ سیکنڈری شواہد پر جرح کی جاتی تھی۔

نیب ریفرنسز کا پس منظر

سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کر رکھے ہیں، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔

نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔

العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔

نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔

جب کہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 10 جون کو سماعت کے دوران احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز پر ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔

مزید خبریں :