عوام کیلئے بس ایک فارمولا: جو بولے وہی کنڈی کھولے!

پانی کی فراہمی اور اس کو محفوظ کرنا کبھی کسی حکومت کی ترجیح رہی ہی نہیں، بس کمیٹیاں بنتی رہیں، فنڈز جمع ہوتے رہے، پانی ضائع ہوتا رہا اور عوام لُٹتے رہے—۔ فائل فوٹو

پاکستانی عوام امیر ہیں یا غریب، یہ معاملہ پھر کبھی سہی، لیکن اس حقیقت سے تو سب ہی واقف ہیں کہ حکمرانوں کی جیبیں اور اکاؤنٹس تو بھرے ہوئے ہیں مگر دل، دماغ اور پیٹ سب خالی ہیں۔

سخاوت، میانہ روی یا دینے دلانے کے نام پر یہ سیاستدان خالی دل فقیروں کی طرح منہ تکتے ہیں، اگر دماغ نام کی کوئی چیز ہوتی تو اچھے وسائل سے بہترین نظام دے سکتے تھے، زحمت اور بدانتظامی کو تبدیل کرکے رحمت بنا سکتے تھے اور مسائل کو 'ٹوئسٹ' کرکے وسائل تشکیل دے سکتے تھے، اور تو اور ان کا تو پیٹ بھی کھا پی کر خالی رہتا ہے، ملک و قوم کی دولت 70 سال سے لوٹ رہے ہیں، لیکن 'مفتا' کھا کر بھی پیٹ نہیں بھر رہا، لگتا ہے جس شخص کو 'ماں کی بددعا' ہے، بس وہی سیاستدان بن جاتا ہے، جس کے مقدر میں ہر وقت بس لعنتیں اور ملامتیں ہوتی ہیں۔

ایک سیاسی جماعت ہے، جو ہر ماہ بناء کسی کام کے کچھ رقم کچھ لوگوں میں بانٹ دیتی ہے۔ نجانے کون کون سی اسکیمیں اور کارڈز متعارف کرا کے قوم کو معذور بنادیا گیا ہے، جو کچھ نہیں کر رہا اس کو بھی بھیک تو مل ہی رہی ہے۔ جب خود کما نہیں رہے تو 'روٹی، کپڑا، مکان' سمیت تعلیم اور صحت پر کیسے اور کیوں خرچ کریں، بس اگلا ووٹ ڈالنے تک سانس تو آہی رہی ہے ناں ۔۔۔ جب بنیادی ضروریات کے بارے میں آگہی ہی نہیں تو سڑکیں، اسکول، صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب جیسی سہولتیں تو بہت بڑی عیاشی ہیں بھئی اور جب یہ سب سِرے سے ہے ہی نہیں تو خرابی یا تباہ و برباد ہونے کا بھی غم نہیں، بس شاہ جی کا دستِ کرم سلامت رہے، اگلا ووٹ پکا ہے!کچھ کیے بغیر لگے بندھے پیسے جو مل رہے ہیں، پوری نسل ان کی غلام ہے۔

اس سوچ کے بعد سرکاری خزانے سے اربوں بٹور کر کروڑوں کا خرچ دکھا کر لاکھوں لوگوں میں بس چند ہزار تقسیم کیے جاتے ہیں۔ کہنے کو تو بڑا شاندار پروگرام ہے، نہ کبھی کوئی نیچ ذات کا ان کے برابر آئے گا، نہ سوچے گا اور نہ آگے بڑھے گا۔ بڑے سیاستدانوں کے بچے بھی ان کے ہی نقشِ قدم پر چل رہے ہیں ، پارٹی کا منشور بھی وہی ہے، بس الفاظ کی کچھ ہیرپھیر کردی گئی ہے اور عوام کی حالت تو مت ہی پوچھیے، بس سلامت رہیے، خوش رہیے!

ایک اور سیاسی جماعت ذرا مختلف انداز سے مخالف پارٹی کو 'کاؤنٹر' کرتی ہے، عوام کو بھی لوٹنا ہے، حمایتیوں کو بھی ان کی اوقات میں رکھنا ہے، ٹکر دینے والی جماعت کو بھی چونا لگانا ہے، مل کر نہیں کھانا بلکہ جو سب سے زیادہ کھائے گا اُسی کو نوازا جائے گا۔ چھوٹے کام میں چھوٹا کھانچہ اور بڑے کام میں بڑا مال بنتا ہے، یقین نہ آئے تو تشہیری پروگرام دیکھ لیں، اسکیمیں دیکھ لیں، ٹرانسپورٹ کا نظام دیکھ لیں۔ اس کے برعکس ملکی و غیر ملکی اکاؤنٹس میں بڑی رقم، جائیدادیں، بیوی بچوں اور ان کے نام پر بنے اثاثوں کی تعداد اور مالیت دیکھ لیں۔ اگر لاہور شہر میں بارش کا 38 سالہ ریکارڈ ٹوٹا اور شہر کا ستیاناس ہوگیا تو اس میں آپ کا بھی قصور ہے، آپ بھی تو عرصہ دراز سے حکومت میں ہیں، کچھ تو پلان کرنا چاہیے تھا، لیکن نہیں! یہاں تو بس اپنا ملبہ دوسرے کے سر ڈال دیا جاتا ہے۔

نواز شریف صاحب نے اپنے پچھلے دورِ حکومت میں ایک نعرہ لگایا تھا، ’قرض اتارو ملک سنوارو‘، اس اسکیم کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے کی غرض سے ایک اسپیشل فنڈ قائم کیا گیا، عوام نے اس نعرے میں بڑی کشش محسوس کی اور دل کھول کر پیسے اور عطیات دیئے، اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے طلبا سے لے کر سرکاری اداروں میں ملازم افسران اور ادنیٰ ملازموں نے بھی اپنا حصہ ڈالا، مگر افسوس کہ نہ قرض اُتر سکا اور نہ ہی ملک سنورا۔

اصل میں پاکستانیوں کی اپروچ ہی غلط تھی۔ اس ملک کو مالی قرضوں سے زیادہ 'سیاسی قرضے' اتارنے کی ضرورت ہے

اس اسکیم میں حکومت نے عوام سے دو سال کے لیے قرض حسنہ مانگا، دو سال کی مدت کے لیے لیا گیا یہ قرض حسنہ مختلف بینک 19سال تک دبائے بیٹھے رہے اور بینکوں نے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے کی رقم کا برسوں تک کوئی حساب نہیں دیا۔

اُلٹا اس قرض کے حساب کتاب میں فراڈ اور اربوں روپے کے گھپلوں کے الزامات سامنے آگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سیاست دانوں کے ہاتھوں نہ ہی قرض اترنا تھا اور نہ ہی ملک سنورنا تھا۔ اصل میں پاکستانیوں کی اپروچ ہی غلط تھی۔ اس ملک کو مالی قرضوں سے زیادہ 'سیاسی قرضے' اتارنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ قرض ہے جو عوام نے عاقبت نااندیش اور نااہل سیاسی لوگوں کو اقتدار میں بٹھا کر کئی قسطوں میں اپنے سر پر چڑھا رکھا ہے۔ یہ اتنی بڑی شرح سُود پر لیا گیا قرض ہے کہ جس کا سود اس کے اصل زر سے بھی بڑھ چکا ہے۔جب بھی دس سال یا پانچ سال کے بعد اس قرض کو اتارنے کا وقت آتا ہے تو ہمارے عوام یا تو پہلے والے سیاسی قرض کو 'ری شیڈول' کر وا لیتے ہیں یا پچھلا قرض اتارنے کے لیے 'بھاری شرح سود' والا ایک اور نیا قرض لے لیتے ہیں۔ کبھی 'شریف قرض'، کبھی 'مشرف قرض'، کبھی 'زرداری قرض'، پھر 'نواز شریف قرض' اور اب 2018 میں نجانے کو ن سا قرض چڑھے گا؟

دہشت گردی وہ سود ہے جو 'مشرف قرض' کی مد میں ہم سے ابھی تک وصول کیا جا رہا ہے، لوڈ شیڈنگ اور کرپشن کا سود 'زرداری قرض' کی مد میں ابھی تک واجب الاادا ہے اور مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے جبکہ 'شریف قرض' پر ہوشربا مہنگائی، بے روزگاری، لا قانونیت، بیرونی قرضوں اور بدانتظامی کا سود ادا کرتے کرتے قوم کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔

بجلی، پانی،کھانا، فون سب پر ہی ٹیکس ہے، سب ہی مہنگا ہے، سب ہی عوام کی بنیادی ضروریات ہیں، پر مجال ہے کہ حکمرانوں نے کبھی عوام کی سہولت کے لیے کچھ کیا ہو۔ ہر آنے والا مسائل کا ملبہ پچھلے پر ڈال کر لوٹ مار میں مصروف ہو جاتا ہے، اس کے لیے اسے کسی کو بھی چونا لگانا پڑے یا اپنی اوقات سے کتنا ہی نیچا آنا پڑے، وہ اس کا خیال نہیں کرتے، واقعی سچ ہے انسان پیسے اور اقتدار کے نشے میں سب کچھ بھُلا دیتا ہے۔

اس بار 'عدلیہ اِن ایکشن' ہے اور ازخود نوٹس کیسز کی صورت میں نااہلوں، بد انتظامی کرنے والوں کے کان کھینچے جارہے ہیں

عوام کی فلاح وبہبود کے لیے سرکاری اداروں کی طرف اب نہیں دیکھا جارہا، کسی بھی ناگہانی آفت یا سیکیورٹی معاملات پر حکومت فوج کو بلا لیتی ہے یا فوج کو جب لگتا ہے کہ حکومت کو ہماری ضرورت ہے تو مدد کو آجاتی ہے، لیکن اس بار 'عدلیہ اِن ایکشن' ہے اور ازخود نوٹس کیسز کی صورت میں نااہلوں، بد انتظامی کرنے والوں کے کان کھینچے جارہے ہیں۔

60 کی دہائی میں جو ڈیم بنے سو بنے، اس کے بعد ہر 10 سال میں ملک میں ڈیم بننا چاہیے تھے، لیکن پانی کی فراہمی اور اس کو محفوظ کرنا کبھی کسی حکومت کی ترجیح رہی ہی نہیں۔ صرف زبانی جمع خرچ اور لڑائی جھگڑے میں حکومتیں آتی جاتی رہیں، کمیٹیاں بنتی رہیں، فنڈز جمع ہوتے رہے، پانی ضائع ہوتا رہا اور عوام لُٹتے رہے۔ غریب، غریب سے غریب تر اور لاچار، لاچار سے لاچار تر ہوتے چلے گئے۔ حکام پانی و بجلی کا کہنا ہے کہ ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے کروڑوں ملین ڈالرز کا پانی ضائع ہو رہا ہے، اس طرح سال میں 90 ملین ایکڑ پانی ضائع ہوتا ہے۔گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں پانی کی قلت اور ڈیم سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران  چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھاشا اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم دیا۔

اور صرف یہی نہیں، چیف جسٹس نے ڈیموں کی تعمیر کے لیے ذاتی طور پر ایک ملین روپے بھی دیئے، حتیٰ کہ تیسری جماعت میں پڑھنے والے ایک بچے علی شیر نے بھی ڈیم کے لیے 10 ہزار روپے عطیہ کیے، جو اُس نے اپنے جیب خرچ کے علاوہ سائیکل اور موبائل گیمز فروخت کرکے اکٹھے کیے۔ علی شیر نے دوسرے بچوں سے بھی اپیل کی کہ وہ بھی ان کی طرح ڈیمز کی تعمیر کے لیے عطیات جمع کرائیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اربوں ڈالر لوٹنے والے حکمرانوں کو کٹہرے میں لاکر اُن سے قوم کا پیسہ وصول کیا جاتا اور ڈیموں کی تعمیر کی جاتی۔ وقت اور پانی ضائع کرنے پر عوام کو کوڑیوں کا محتاج کرنے پر سابق حکمرانوں پر جرمانے عائد کیے جاتے، سزائیں دی جاتیں۔

لیکن ہوا یہ کہ سیکریٹری خزانہ نے چیف جسٹس کے پوچھنے پر کہا کہ پبلک اکاؤنٹ کھولا جائے اور عوام ڈیم کی تعمیر کے لیے اس میں اپنے فنڈز جمع کروائیں اور تو اور پانی کے استعمال کرنے والوں سے قیمت بھی وصول کی جائے۔ اس کے استعمال کے حوالے سے قواعد بھی ضروری ہیں۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر عدالت حکم نہیں دے گی تو صرف اس حوالے  سے بحث ہی ہوتی رہے گی جبکہ عوام ڈیمز کے لیے فیصلہ دے چکے ہیں۔

گویا کہ ملک بھی عوام کا، پیسہ بھی عوام کا، خواہش بھی عوام کی، فیصلہ بھی عوام کا، پانی بھی عوام کا، اب ڈیم بھی عوام ہی بنائے، اپنے ہی پیسے لگائے اور اس پر ٹیکس بھی دے۔ 

عوام کے لیے بس یہی فارمولا ہے، 'جیہڑا بولے اوہی کنڈا کھولے' یعنی، 'جو بولے وہی کنڈی کھولے'!

دوسری جانب ٹیکس، ریونیو، کھانچے،کرپشن، ملکی و غیرملکی جائیدادیں اور اثاثے سب حکمرانوں کے یعنی ان کے لیے فارمولا ہے، 'لُٹوتے کھسکو' یعنی 'لوٹو اور نکل جاؤ'۔

اب اس پر اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ جئے حکمرانو، تواڈی خیر ہو، عوام تو ہیں ہی چکی میں پِسنے کے لیے!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔