این اے 251 : کیا اس بار نتیجہ مختلف آئے گا؟

اس حلقے میں رہنے والوں کی اکثریت بہاری کمیونٹی کی ہے جبکہ اردو بولنے والے، پختون، بلوچ اور بنگالی بھی مقیم ہیں

پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی شہ رگ کراچی میں قومی اسمبلی کی 21 نشستوں میں سے ایک نشست این اے 251 بھی ہے۔

این اے 251 کراچی کے ضلع غربی کی پانچ نشستوں میں سے ایک ہے جو کافی گنجان آباد علاقہ ہے۔

قبل ازیں یہ قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 242 تھا تاہم نئی حلقہ بندیوں کے بعد یہ این اے 251 ہوگیا ہے۔ اس حلقے میں اورنگی ٹاؤن اور مومن آباد کے بعض علاقے بھی شامل ہیں۔

اورنگی ٹاؤن کو ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی کہا جاتا رہا ہے تاہم اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو یہ درست نہیں۔ ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی بھارتی شہر ممبئی میں ’دھاراوی‘ ہے۔

اورنگی ٹاؤن کے کچھ علاقوں کو کچی آبادی کہا جاسکتا ہے البتہ مجموعی طور پر یہ شہر کے دیگر متوسط علاقوں کی طرح ہی ہے۔









اس حلقے میں رہنے والوں کی اکثریت بہاری کمیونٹی کی ہے جبکہ اردو اسپیکنگ، پختون، بلوچ اور بنگالی بھی مقیم ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق این اے 251 کی مجموعی آبادی 7 لاکھ 66 ہزار 724 نفوس پر مشتمل ہے جبکہ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 5 ہزار 652 ہے۔ مرد رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 39 ہزار 849 اور خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 65 ہزار 803 ہے۔

حلقے کا سیاسی پس منظر

الیکشن 2018 میں روایتی سیاسی قوتیں کمزور نظر آرہی ہیں اور ان کی جگہ نئی جماعتیں لے رہی ہیں۔

پنجاب میں اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں چھوٹی جماعتوں میں مقابلہ ہے، اندرون سندھ میں ہمیشہ کی طرح پیپلز پارٹی کا پلہ بھاری ہے البتہ ان انہیں ٹکر دینے کے لیے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سامنے آگیا ہے۔

ان انتخابات میں سب سے دلچسپ مقابلے کی توقع شہر قائد میں ہے جہاں پاکستان کی چاروں بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ میدان میں اترے ہیں۔

پاکستان مسلم ن کے صدر شہباز شریف، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اس بار کراچی سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں اور ایم کیو ایم کی قیادت تو ہمیشہ سے ہی کراچی سے انتخابی دنگل لڑتی رہی ہے۔

چونکہ این اے 251 میں بسنے والے زیادہ تر لوگ 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پاکستان ہجرت کرکے آئے ہیں لہٰذا ہمیشہ سے ہی یہ علاقہ مختلف مسائل کا شکار رہا ہے۔


بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آنے والے بہاری کمیونٹی کے افراد کو پاکستان کی شہریت کے حصول میں دشواری کا سامنا تھا، یہی وہ وقت تھا جب متحدہ قومی موومنٹ بھی مہاجر قوم کے حقوق کے لیے آواز بلند کررہی تھی۔ ایم کیو ایم نے مہاجروں کے حقوق کے ساتھ ساتھ بہاریوں کو شہریت دلانے کے لیے بھی مہم شروع کردی۔

یہی وہ کاوش تھی جس نے اورنگی میں بسنے والے لوگوں کے دلوں میں ایم کیو ایم کے لیے جگہ بنائی جو وقت سے ساتھ ساتھ گہری ہوتی گئی کیوں کہ قومی شناختی کارڈ کا حصول اُس وقت لوگوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تھا جو ایم کیو ایم کی وجہ سے انہیں حل ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر آفاق خان شاہد جب تک زندہ تھے اورنگی ٹاؤن میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن کسی حد تک مستحکم تھی تاہم 2010 میں ان کے انتقال کے بعد پیپلز پارٹی کی پوزیشن کمزور ہوئی اور حلقے پر ایم کیو ایم کا اثر و رسوخ مزید بڑھ گیا۔

حالیہ مہینوں میں جب اردو بولنے والوں اور بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آنے والوں کو شناختی کارڈز کے اجراء اور تجدید میں مشکلات پیش آئیں تو لوگ ایک بار پھر اپنے لیے آواز اٹھانے والی جماعت کی راہ دیکھنے لگے، البتہ 22 اگست 2016 کے بعد صورتحال یکسر مختلف ہوچکی تھی لہٰذا اس بار اورنگی کے عوام کی مدد کے لیے جماعت اسلامی بڑھ چڑھ کر سامنے آئی اور یہ مسئلہ کافی حد تک حل کرادیا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سیاسی عروج کو آنے والے زوال کے بعد اب تک کوئی سیاسی جماعت واضح طور پر اس حلقے کے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن، پاک سرزمین پارٹی، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل، آل پاکستان مسلم لیگ، پاکستان تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کی جانب سے امیدوار کھڑے کیے جانے کے باوجود محسوس یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کی خاموش حمایت اب بھی ایم کیو ایم کے ساتھ ہے۔

انتخابی دنگل میں موجود امیدوار


ماضی کے انتخابی نتائج

2008 اور 2013 کے انتخابات کے نتائج کے مطابق اس حلقے سے ایم کیو ایم کے امیدواروں نے ایک لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے اور بھاری مارجن سے حریفوں کو شکست دی۔

2008 میں ایم کیو ایم کے امیدوار ڈاکٹر عبدالقادر خانزادہ نے ایک لاکھ 47 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے، ان کے قریب ترین حریف پیپلز پارٹی کے آفاق خان شاہد تھے جو صرف 27 ہزار 294 ووٹ حاصل کرسکے تھے۔

2008 کے الیکشن میں اس حلقے میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے علاوہ تیسری کوئی سیاسی قوت موجود نہیں تھی۔


2013 کے عام انتخابات میں بھی اس حلقے سے ایم کیو ایم نے تمام جماعتوں کو بدترین شکست دی۔ ان انتخابات میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے علاوہ آل پاکستان مسلم لیگ، پاکستان تحریک انصاف، ن لیگ اور دیگر چھوٹی جماعتیں انٹری مار چکی تھیں۔

ایم کیو ایم کے محبوب عالم نے ایک لاکھ 66 ہزار سے زائد ووٹ کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ اس حلقے سے پہلی بار امیدوار کھڑا کرنے والی پی ٹی آئی نے دوسری پوزیشن حاصل کرکے سب کو حیران کردیا تھا۔ پی ٹی آئی کے اکرم خان نے 10 ہزار 889 ووٹ حاصل کیے جبکہ ن لیگ کا اس حلقے سے 9 ہزار سے زائد ووٹ لینا بھی غیر معمولی بات تھی۔








مضبوط امیدوار

اس حلقے کے ماضی کو مد نظر رکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے سید امین الحق سب سے مضبوط امیدوار ہیں۔

الیکشن 2018 میں کراچی کے دیگر حلقوں کی طرح اس حلقے کی صورتحال بھی ذرا مختلف ہوگئی ہے، ایم کیو ایم ماضی کی طرح انتخابی مہم نہیں چلارہی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے امیدوار کھڑے کردیے ہیں اور یہ دونوں جماعتیں توقع سے زیادہ بھرپور مہم چلارہی ہیں۔

پاک سرزمین پارٹی بھی میدان میں آچکی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو ہوتا نظر آرہا ہے تاہم پی ایس پی کی جانب سے کھڑے کیے جانے والے امیدوار نہال ملک زیادہ مقبول نہیں اور نہ ہی وہ سیاسی تجربہ رکھتے ہیں۔

اس کے برعکس پی ٹی آئی کے امیدوار اسلم بھاشانی کو لوگ جانتے ہیں تاہم اس کی وجہ سیاسی نہیں بلکہ ’بھاشانی سوئیٹس‘ ہے جس کے ’چم چم‘ پورے شہر میں مشہور ہیں۔

امین الحق کو ایم کیو ایم کے نام کا فائدہ حاصل ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل ضیاء سیاست میں نومولود ہیں۔

متحدہ مجلس عمل کے امیدوار لئیق احمد تجربہ کار سیاستدان ہیں اور ماضی میں اس حلقے سے کامیاب بھی ہوچکے ہیں۔

لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ این اے 251 کی نشست پر ایم کیو ایم ، تحریک انصاف اور ایم ایم اے کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا جبکہ پی ٹی آئی اپ سیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔