2018 کے عام انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین کی تعداد ماضی میں ہونے والے انتخابات کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ بظاہر یہ امر متاثر کن لگتا ہے لیکن ہے نہیں۔ خواتین کے الیکشن لڑنے کی شرح اب بھی بہت کم ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 723 نشستوں کے لیے میدان میں آنے والے امیدواروں میں خواتین کی نمائندگی صرف 2.6 فیصد ہے۔
انتخابی فہرست کے مطابق 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 ہے جن میں 44 فیصد خواتین ہیں۔
انتخابی دنگل میں خواتین امیدواروں کی تعداد میں اضافے کی ایک اہم وجہ تو گزشتہ برس اکتوبر میں پاس ہونے والا الیکشن ایکٹ 2017 ہے جس کے تحت سیاسی جماعتیں مجموعی انتخابی نشستوں میں سے 5 فیصد نشستوں پر خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی پابند ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے البتہ 58 سیاسی جماعتیں اب بھی ایسی ہیں جنہوں نے کسی خاتون کو ٹکٹ نہیں دیا۔
جن سیاسی جماعتوں نے خواتین کو ٹکٹس دیے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی محض خانہ پوری کی ہے اور قانون کے مطابق 5 فیصد کی کم سے کم حد سے زیادہ آگے نہیں بڑھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن خواتین کو ٹکٹ دیے گئے ان میں سے کئی خواتین کو ان کی اپنی سیاسی جماعت بھی ٹکٹ کے حصول کا موزوں دعوے دار نہیں سمجھتی۔
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان
فردوس عاشق اعوان ماضی میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات رہ چکی ہیں۔ انہوں نے 2017 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو خیر باد کہا اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں شمولیت اختیار کی۔ وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 72 سیالکوٹ سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔
ڈاکٹر یاسمین راشد
ڈاکٹر یاسمین راشد نے 2010 میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور 2013 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے انہیں سابق وزیراعظم نواز شریف کے مدمقابل لاہور سے کھڑا کیا۔ یاسمین راشد نواز شریف سے عام انتخابات میں شکست کھاگئیں جبکہ اس کے بعد اسی حلقے میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں بھی وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔ اس بار وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پنجاب کے حلقہ این اے 125 سے میدان میں ہیں۔
غلام بی بی بھروانہ
غلام بی بی بھروانہ کا تعلق پنجاب کے علاقے جھنگ کے بااثر خاندان سے ہے۔ وہ 2002 کے انتخابات میں پہلی بار پاکستان مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہوکر پارلیمنٹ پہنچیں۔ 2008 کے عام انتخابات میں وہ ایک بار پھر رکن اسمبلی منتخب ہوئیں۔ 2013 میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی اور ایک بار پھر الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ گزشتہ برس انہوں نے اپنی پارلیمانی رکنیت سے استعفیٰ دیا اور مئی میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس بار وہ این اے 115 جھنگ سے پی ٹی آئی کی امیدوار ہیں۔
سائرہ افضل تارڈ
سائرہ افضل تارڈ سابق وزیر صحت رہ چکی ہیں اور وہ پنجاب میں اپنے آبائی حلقے حافظ آباد سے 2008 سے انتخابی معرکے میں کامیابی حاصل کرتی آرہی ہیں۔ گزشتہ دو عام انتخابات میں وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ ہی وابستہ رہیں اور اس بار بھی ن لیگ کے ٹکٹ پر این اے 87 پر الیکشن لڑرہی ہیں۔
شیزرا منصب علی خان
انتخابی منظر نامے میں موجود دیگر خواتین کے مقابلے میں شیزرا منصب علی خان سیاست میں نومولود ہیں۔ انہوں نے 2015 میں اپنے والد سابق وزیر مملکت رائے منصب علی خان کے انتقال کے بعد سیاست میں قدم رکھے۔ انہوں نے ننکانہ صاحب میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کی اور اس بار بھی اسی حلقے سے ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔
تہمینہ دولتانہ
تہمینہ دولتانہ ایک منجھی ہوئی سیاستدان ہیں جو جنرل نشست پر پہلی بار 1993 میں منتخب ہوئیں۔ اس کے بعد وہ کبھی جنرل نشست اور کبھی خواتین کی مخصوص نشست پر پارلیمنٹ میں موجود رہیں۔ مسلم لیگ ن کی کابینہ میں وہ وزیر برائے ترقی نسواں بھی رہ چکی ہیں اور اس بار وہ این اے 164 ویہاڑی سے ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔
ثمینہ خالد گھرکی
ثمینہ خالد گھر کے شوہر سیاست میں کافی سرگرم رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے خالد جاوید گھرکی 90 کی دہائی سے پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور سے الیکشن لڑتے اور جیتتے رہے ہیں۔ تاہم خالد جاوید گھرکی کے بیمار ہونے کے بعد ان کی اہلیہ ثمینہ خالد گھرکی نے میدان سنبھالا۔ وہ 2008 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں تاہم اس کے بعد وہ حلقے میں کامیابی حاصل نہ کرسکیں اور اس بار وہ این اے 132 لاہور سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔
فریال تالپور
فریال تالپور سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی قائدین میں سے ایک ہیں۔ وہ 2008 سے رکن قومی اسمبلی ہیں اور سندھ کے شہر لاڑکانہ سے جنرل نشست پر کامیاب ہوئیں۔ پیپلز پارٹی نے اس بار بھی فریال تالپور کو این سے 207 لاڑکانہ سے میدان میں اتارا ہے۔
عاصمہ ارباب عالمگیر
عاصمہ ارباب عالمگیر اور ان کے شوہر ارباب عالمگیر خان دونوں ہی سیاست میں کافی سرگرم ہیں۔ ان کے شوہر وفاقی وزیر برائے مواصلات رہ چکے ہیں جبکہ وہ پیپلز پارٹی کی خواتین ونگ کی صدر رہ چکی ہیں۔ 2008 میں پہلی بار وہ خیبر پختونخوا سے خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ اس بار وہ این سے 27 پشاور میں پیپلز پارٹی کی امیدوار ہیں جبکہ ان کے شوہر بھی انتخابات لڑ رہے ہیں۔
2013 کے عام انتخابات کے بعد 342 رکنی قومی اسمبلی میں 60 خواتین مخصوص نشست پر ایوان میں پہنچیں جبکہ صرف 9 خواتین جنرل نشست پر الیکشن جیت کر پارلیمنٹ تک پہنچنے میں کامیاب رہیں جو کہ ایوان کی کُل نشستوں کا صرف 3.3 فیصد ہے۔