کون بنے گا صدرِ پاکستان؟

وفاق کے سربراہ یعنی صدر پاکستان ایک غیر انتظامی عہدہ ہوتا ہے کیونکہ صدر وزیر اعظم کی سفارش پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔

وفاق کے سربراہ یعنی صدر پاکستان ایک غیر انتظامی عہدہ ہوتا ہے کیونکہ صدر وزیر اعظم کی سفارش پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔

پارلیمانی نظام میں صدر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی وابستگی سے بالا ہو کر وفاق کی نمائندگی کرے اور نامزد ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں سے مستعفی ہو جائے۔ 

دوڑ میں کون کون حصہ لے رہا ہے؟

صدرِ پاکستان کے عہدے کے لیے حکومتی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے عارف علوی کو نامزد کیا گیا ہے، جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے چوہدری اعتزاز احسن اور مسلم لیگ ن نے مولانا فضل الرحمٰن کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نا صرف مسلم لیگ ن، بلکہ متحدہ مجلسِ عمل، عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے متحدہ امیدوار ہیں۔

صدر کا انتخاب کس طرح ہوتا ہے؟

آئین کے آرٹیکل 41 کی شق 3 کےتحت پارلیمان، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کا خصوصی اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ 

104 سینیٹرز، قومی اسمبلی کے 342 اور صوبائی اسمبلی کے 260 ممبران سمیت 706 قانون ساز پاکستان کے تیرہویں صدر کا انتخاب کریں گے۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں کو یکساں 65 ووٹ دیے جاتے ہیں تاکہ سب کی نمائندگی برابر رہے۔ 




موجودہ اسمبلیوں میں اراکین کی تعداد کچھ اس طرح ہے، قومی اسمبلی میں کُل ارکان 330، سینیٹ میں 102، پنجاب اسمبلی میں 354، سندھ 165، خیبرپختونخوا 111 اور بلوچستان اسمبلی میں 60 اراکین ہیں۔

تاہم سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کے مجموعی ووٹوں کو 60 سے تقسیم کیا جائے گا جس کے بعد پنجاب اسمبلی میں 5.9 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا جب کہ سندھ اسمبلی میں 2.75 ممبران کا ایک ووٹ اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں 1.85 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔

صدارتی انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کو پنجاب اسمبلی کے 188، قومی اسمبلی کے 176 امیدواروں ووٹ دیں گے ۔ اسی طرح مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیدوار فضل الرحمٰن کو سب سے زیادہ پنجاب اسمبلی کے 159 اراکین اور پھر قومی اسمبلی کے96 اراکین کے ووٹ مل سکیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن کو سب سے زیادہ سندھ اسمبلی سے ووٹ ملیں گے جہاں پی پی پی کے امیدواروں کی تعداد 97 ہے۔

نوٹ: ڈیٹا کو مزید باریکی سے سمجھنے کے لیے اپنے ماؤس کو متعلقہ جگہ لے کر جائیں یا اس پر کلک کریں۔


آئین میں درج فارمولے کے تحت پنجاب کے 188 امیدواروں کے ووٹوں کی تعداد 32.98 بنتی ہے جو کہ عارف علوی کو ملیں گے۔ قومی اسمبلی کے 176 اور بلوچستان کے 42 ووٹ ملا کر عارف علوی کی سبقت دلوانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ مولانا فضل الرحمن کو ووٹ دینے والے اراکین کی مجموعی تعداد 343 ہے اس لیے فارمولے کے تحت ایڈجسمنٹ کے بعد کل ووٹوں کی تعداد 199 بنتی ہے۔ جب کہ اعتزاز احسن کے پاس صرف 115 ووٹ ہیں۔


عارف علوی کو سب سے زیادہ ان کی اپنی جماعت کے 279 اراکین کے ووٹ ملیں گے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں ایم کیو ایم کے 32 اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے 29 اراکین کی بھی حمایت حاصل ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو سب سے زیادہ مسلم لیگ ن کے 279 اراکین کی حمایت دستیاب ہے جب کہ اعتزاز احسن کو صرف اپنی جماعت پیپلز پارٹی کے 183 اراکین ووٹ کریں گے۔


لیکن آئینی فارمولے کے تحت اپنی جماعت کے بعد عارف علوی کی جیت میں باپ کے 29 ووٹ انتہائی اہم ثابت ہوں گے۔ عارف علوی کے حق میں ایم کیو ایم کے 32 اراکین کے ووٹوں کی تعداد فارمولے کے تحت 19.75 بنتی ہے۔

اس طرح عارف علوی کے مجموعی ووٹوں کی تعداد 337 بنتی ہے جب کہ مولانا فضل الرحمٰن کے ووٹ کی تعداد 199 اور اعتزاز احسن کی 11 ہے۔