کرتارپور گردوارا سکھوں کیلئے اہم کیوں؟

روایات کے مطابق بابا جی کو سکھ مذہب کے لوگ اپنا گورو اور مسلمان اپنا بزرگ پیر مانتے ہیں

حکومت پاکستان کا جذبہ خيرسگالی کے تحت سکھ یاتریوں کو ویزے کے بغیر کرتارپور گردوارے میں رسومات ادا کرنے کی پیش کش کے بعد سکھ برادری میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

کرتارپور میں گردوارا صاحب کی تعمیر پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921 تا 1929کے درمیان کروائی۔ گردوارا صاحب سکھ مذہب کے بانی گورو نانک دیوجی مہاراج کی یاد میں بنایا گیا۔

کرتار پور صاحب — فوٹو: راوی 


گردوارہ کرتار صاحب کا دلفریب منظر — فوٹو: راوی

گورو نانک کی پیدائش 1499 عیسوی کو ننکانہ صاحب میں ہوئی اور ان کے والد کا نام مہتا کلیان داس اور ماں کا نام ماتا ترپتا تھا۔

گورو نانک 1521 کو اس مقام پر تشریف لائے اور کرتار پور کے نام سے ایک گاؤں کو آباد کیا، 1539ء تک آپ نے یہاں قیام کیا اور کھیتی باڑی بھی کی۔ 

— فوٹو: راوی 

روایات کے مطابق بابا گورو نانک کو سکھ مذہب کے لوگ اپنا گرو اور مسلمان اپنا بزرگ پیر مانتے تھے، 22 ستمبر 1539ء کو جب گورو نانک کا انتقال ہوا تو سکھوں اور مسلمانوں میں تنازع پیدا ہوا کہ گورو نانک کی آخری رسومات اپنے اپنے مذہب عقائد کے مطابق ادا کریں۔

سکھ برادری کے افراد عبادت کرتے ہوئے — فوٹو: راوی 

کہتے ہیں کہ اس جھگڑے کے فیصلے کے لئے کسی درویش کے کہنے پر گورو نانک کے جسم سے چادر اٹھائی گئی تو ان کے جسم کے بجائے پھول موجود تھے اور فیصلے کے مطابق چادر اور پھولوں کو برابر دو حصوں میں بانٹ کر اپنی اپنی مذہبی رسومات کے مطابق مسلمانوں نے چادر اور پھولوں کو دفن کیا جبکہ سکھوں نے اسے جلا کر سمادھ استھان بنا لیا اور آج بھی یہ دونوں نشانیاں قائم ہیں۔

بابا گرونانک جی کی آخری آرام گاہ — فوٹو: راوی 

سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک کی آخری آرام گاہ گردوارا دربار صاحب کرتار پور سکھوں کی سب سے بڑی عقیدت گاہ ہے۔  پاکستان حکومت نے اگلے سال بابا گورو نانک کے 550 ویں جنم دن کے موقع پر کرتار پور کے بارڈر سے ویزہ کے بغیر سکھ یاتریوں کو یاترا کی پیش کش کی ہے، یہ دربار پاک بھارت سرحد کے قریب نالہ بئیں اور دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔

گردوارہ صاحب کا بیرونی منظر — فوٹو راوی 

شکر گڑھ کے موضع کرتار پور میں دربار بابا گورو نانک دیو جی، پاک بھارت بارڈر سے محض ساڑھے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور محض 30 منٹ میں پیدل طے کرکے سرحد پار سے لاکھوں عقیدت مند یاتری درشن اور دیگر مذہبی رسومات ادا کر سکتے ہیں۔ 

— فوٹو: راوی 

قیام پاکستان کے بعد بھارت میں بسنے والے لاکھوں سکھوں کو ویزے کے انتظار، سیکیورٹی اور اسکروٹنی کے بعد واہگہ کے راستے سفر اور بھاری بھر کم اخراجات کے بعد گردوارہ کا درشن میسر آتا تھا۔ 

— فوٹو: راوی 

دربار کے سامنے سرحد پار بھارتی شہر ڈیرہ بابا گورو نانک میں ایک درشن استھان بنایا گیا ہے جس پر کھڑے ہو کر سرحد پار سکھ اس دربار کا دیدار کرتے ہیں، 1999 میں پاکستان نے دربار کی یاترا کے لیے بھارت کو پیش کش کی تھی کہ یہاں باڑ لگا کر ایک کوریڈور بنادیتے ہیں تاکہ یاتری صبح آئیں اور شام کو واپس چلے جائیں مگر آج تک بھارت سے مثبت جواب نہیں آیا۔

— فوٹو:راوی 

کرتار پور بارڈر کھلنے کی امید کے ساتھ ہی، دربار پر تزئین وآرائش، رنگ وروغن، لان سے گھاس کی کٹائی اور نئی تعمیرات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے گردوارے کے درشن کیلئے آنے والے لاکھوں سکھ یاتریوں کو ہر ممکن سہولیات اور سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔


گردوارہ کرتار پور میں تزئین و آرائش کا کام جاری ہے — فوٹو: فائل 

بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والےکروڑوں سکھ کرتار پور بارڈر کھلنے پر خوشی سے نہال ہیں۔