پنجاب کے اہم منصوبوں کا مستقبل کیا؟

پچھلی صوبائی حکومت کے 30 سے زائد سماجی بہبود اور خواتین سے منسلک منصوبے نئی حکومت کے آنے کے بعد سے غیر یقینی کا شکار ہیں۔

پنجاب کی پچھلی حکومت کے 30 سے زائد سماجی بہبود اور خواتین سے منسلک منصوبے غیر یقینی کا شکار ہیں۔

یہ منصوبے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کے دورِ حکومت میں شروع کیے گئے، جنہیں اسٹریٹیجک ریفارم یونٹ (ایس آر یو) نے عملی جامہ پہنایا۔ یہ یونٹ 2014 میں بنایا گیا تھا۔ 2018 تک اس نے 14 بل اسمبلی میں پیش کیے اور 30 منصوبوں کو شروع کروایا۔ ان میں سب سے نمایاں ویمن آن ویلز اور تشدد کی شکار خواتین کے لئے بنائے گئے مراکز تھے۔

زیادہ ترمنصوبے تکمیل کی طرف گامزن تھے کہ جولائی میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو شکست ہوئی اور تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔

اسٹریٹیجک ریفارم یونٹ کے سابق سربراہ سلمان صوفی نے جیو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 'فی الحال ان منصوبوں کا مستقبل واضح نہیں، کیونکہ ابھی تک نئی حکومت سے کچھ بھی سپورٹ نہیں ملی'۔ واضح رہے کہ سلمان صوفی کو نگران حکومت نے جولائی میں ایس آر یو کی سربراہی سے ہٹا دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا، ’سب منصوبوں کو دیگر شہروں تک پھیلایا جا رہا تھا لیکن نئی تقرریوں کو روک دیا گیا۔‘

اسٹریٹیجک ریفارم یونٹ کے ایک مرکز کی تصویر—۔

ان منصوبوں میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کو پورے پنجاب میں پھیلانا قانونی طور پر لازم ہے۔ ملتان میں تشدد کی شکار خواتین کے لیے قائم کیا گیا ایک مرکز ان میں سے ایک ہے۔ اس مرکز میں خواتین کو انصاف دلوانے کے لیے ہر طرح کی مدد دی جاتی ہے۔ 

حکومت کے زیرِ انتظام ان مراکز کا مقصد خواتین کو فوری انصاف کی فراہمی، ان کی ایف آئی آرز کا اندارج، فارنزک ٹیسٹ حاصل کرنا اور ان کی بحالی اور مشاورت میں مدد فراہم کرنا ہے۔

اپنےقیام سے اب تک، یہ مرکز خواتین کے خلاف تشدد کے ہزاروں واقعات جیسے گھریلو تشدد، ہراساں کرنے کے واقعات اور جنسی زیادتی جیسے معاملات نمٹا چکا ہے۔

اس ادارے کے پوسٹ ٹراما بحالی مراکز نہایت اہم ہیں۔ بلال صوفی نے جیو نیوز کو بتایا کہ ’گزشتہ سال، ہم نے صرف ایک مرکز میں 1400 مقدمات کی معاونت کی۔‘

تاہم گزشتہ دو ماہ سے مرکز کے عملے کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے، حتیٰ کہ توسیع کے لئے فنڈز بھی بند کردیے گئے ہیں۔ تاہم سخت دباؤ کے باوجود یہ مرکز ہر روز تقریباً 20 خواتین کی مدد جاری رکھے ہوئے ہے۔

دوسری جانب ویمن آن ویلز کا مستقبل بھی معلق ہے، جو کہ خواتین کو موٹر سائیکل چلانے کی تربیت اور ترغیب دیتا ہے۔

22 سالہ قدسیہ عباس کا کہنا ہے کہ انہیں بچپن سے موٹر سائیکل چلانے کا شوق تھا، اگر ویمن آن ویل یہ اقدام نہ اٹھاتا تو آج ان کا یہ خواب حقیقت نہ بن پاتا۔

قدسیہ کا خیال ہے کہ اگر موجودہ حکومت نے اس قسم کے انقلابی منصوبوں کو بند کر دیا تو دیگر لڑکیاں ان مواقع سے محروم رہ جائیں گی جو ان کو حاصل ہوئے۔

ویمن آن ویلز کے تحت لاہور میں خواتین میں کم نرخوں پر 700 سے زائد اسکوٹرز تقسیم کیے گئے۔

قدسیہ کہتی ہیں، ’میرا کوئی بھائی نہیں ہے اس لیے میرے والد ہی میری بہنوں کو اسکول لینے جاتے تھے، جس کی وجہ سے ان کا کام متاثر ہوتا تھا- اب جبکہ میرے پاس اسکوٹر ہے، تو میں اپنے والد کا ہاتھ بٹاتی ہوں۔‘

ویمن آن ویلز کے اگلے مرحلے میں لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں خواتین میں 10 ہزار سے زائد موٹر سائیکل تقسیم کرنا تھے۔

گزشتہ چار سالوں کے دوران ایس آر یو کے لیے چالیس ملین کا بجٹ مختص کیا گیا تھا، لیکن آج تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور زیر التواء فنڈز کے باعث اس یونٹ کا مستقبل خطرے میں ہے۔

سلمان صوفی نے مزید کہا کہ ’اگر نئی حکومت نے ان منصوبوں کو جاری نہ رکھا تو میں اس کے لیے حتی الامکان کوشش جاری رکھوں گا۔‘

دیکھنا یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی حکومت ان منصوبوں کو ختم کردے گی یا اپنی حریف سیاسی جماعت کی جانب سے قائم کی گئی اس میراث کو جاری رکھے گی؟