پاکستان
Time 13 ستمبر ، 2018

ولدیت سےنام ہٹانے کا معاملہ:عدالت کا لڑکی کےوالد کی مالی حیثیت معلوم کرنے کا حکم

22 سالہ تطہیر فاطمہ نے اپنے برتھ سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات میں سے والد کا نام ہٹا کر 'بنت پاکستان' لکھنے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے کفالت نہ کرنے پر دستاویزات میں سے والد کا نام نکال کر 'بنت پاکستان' لکھنے کی درخواست کرنے والی لڑکی کے والد کی مالی حیثیت معلوم کرنے کا حکم دے دیا۔

واضح رہے کہ ایک 22 سالہ پاکستانی لڑکی تطہیر فاطمہ نے رواں ماہ کے آغاز میں اپنے برتھ سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات میں سے اپنے والد کا نام ہٹانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جس شخص نے کبھی اسے دیکھا نہیں اور ہی نہ کفالت کی، وہ والد کیسے کہلا سکتا ہے؟

لڑکی نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ اس کے برتھ سرٹیفکیٹ، تمام ڈگریوں اور دستاویزات سے والد کا نام ختم کر دیا جائے، کیونکہ وہ اس نام سے الگ ہونا چاہتی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے آج مذکورہ درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران درخواست گزار لڑکی نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ بتایا کہ وہ اپنے والد سے آخری بار 2002 میں ملی، لیکن انہوں نے نہ تو کبھی اس کی کفالت کی اور نہ ہی نادرا میں رجسٹریشن کروائی، جس کی وجہ سے اس کا شناختی کارڈ نہیں بن سکا۔

تطہیر نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ اس کے نام کے ساتھ والد کے نام کی جگہ پر 'بنت پاکستان' لکھا جائے۔

لڑکی کا کہنا تھا کہ 'اس کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں، ہر جگہ پوچھا جاتا ہے کہ تمہارا باپ کہاں ہے؟'

سماعت کے دوران لڑکی کا والد شاہد انجم بھی عدالت میں پیش ہوا اور موقف اختیار کیا کہ 'میں مرتے دم تک اس بچی کا باپ ہوں، مجھے افسوس ہے کہ بچی کی وجہ سے آج اس جگہ کھڑا ہوں'۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ 'آپ بچی کی وجہ سے نہیں، اپنی وجہ سے یہاں کھڑے ہیں'۔

شاہد انجم نے کہا کہ '1996 میں بیوی سے علیحدگی کے وقت مجھے سربازار بے عزت کیا گیا اور مجھے کبھی بیٹی سے ملنے نہیں دیا گیا'۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'کیا کبھی بیٹی سے ملنے کی کوشش کی؟ یا بیٹی سے ملاقات نہ کروانے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا؟'

جس پر  لڑکی کے والد شاہد انجم نے جواب دیا، 'جی نہیں کیا'۔

چیف جسٹس نے شاہد انجم سے مزید استفسار کیا، 'کیا کبھی اپنی بیٹی کو خرچہ بھجوایا؟ کبھی تحائف بھجوائے؟ آخری بار بیٹی سے کب ملے؟'

جس پر تطہیر فاطمہ نے بتایا کہ 'وہ اپنے والد سے آخری بار 2002 میں ملی'۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 'آپ کیسے باپ ہیں، آپ کی بیٹی اپنا شناختی کارڈ ہی نہیں بنوا سکی'۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 'بتائیں بچی کی کفالت کا ازالہ کیسے ہوگا؟'

 شاہد انجم نے کہا کہ 'میں غریب آدمی ہوں'۔

 جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو شاہد انجم کی مالی حیثیت کا پتہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے کی سماعت 10 روزکے لیے ملتوی کردی۔

مزید خبریں :