پاکستان
Time 19 ستمبر ، 2018

ولدیت نہ ہونے پر 'بنت پاکستان' لکھنے کا قانون ہونا چاہیے: تطہیر فاطمہ

— تطہیر فاطمہ

تطہیر فاطمہ نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے کہ جس میں انہوں نے اپنی دستاویزات میں ولدیت کے خانے سے اپنے والد کا نام ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

تطہیر فاطمہ نے بدھ کو (آج) جیو نیوز کے مارننگ شو ’جیو پاکستان‘ میں  شرکت کی اور اپنے کیس کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔

تطہیر فاطمہ نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں اپنا نام ’تطہیر بنت پاکستان‘ لکھا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ جن کے پاس ولدیت نہیں ہے انہیں والد کے خانے میں ’بنت پاکستان‘ لکھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

کیس سماعت کے دوران تطہیر کے والد شاہد ایوب نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ جب سنہ 1998 میں ان کی فہمیدہ سے علیحدگی ہوئی تھی تو خاندان کے جرگے نے اپنی بیٹی سے کوئی تعلق نہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ بعد میں انہوں نے ایک آدھ بار بیٹی سے ملنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔

'جیو پاکستان' میں گفتگو کرتے ہوئے 22 سالہ تطہیر فاطمہ نے بتایا کہ 'میں جب سے پیدا ہوئی ہوں تب سے میں نے اپنے والد کی شکل نہیں دیکھی ہے اور یہی میں نے عدالت میں بتایا تھا۔'

تطہیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلی مرتبہ شناختی کارڈ میں اپنے والد کی شکل دیکھی۔

انہوں نے بتایا کہ ہمیں ہر چیز میں والد کی دستاویز کی ضرورت پڑتی ہے اور میں ہمیشہ اس مسئلے سے دوچار رہی ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب میں 18 برس کی تھی تو میں نے اس حوالے سے ہائیکورٹ میں درخواست کی تھی جو کہ مسترد کردی گئی کیونکہ ان کے پاس کوئی حل نہیں تھا۔

تطہیر نے کہا کہ 'میرے لیے یہ معاملہ اخراجات کا نہیں ہے، میں تو بچپن سے ہی اپنی ہر کامیابی یا دکھ تکلیف کی خود کفیل ہوں، میرے والد کا اس میں کوئی کردار نہیں، یہاں تک کہ باپ نہ ہونے کی وجہ سے میں نے جو جو سہا اور ہراساں بھی ہوئی اس کا کوئی ازالہ نہیں کرسکتا۔'

گفتگو کے دوران تطہیر سے پوچھا گیا کہ کیا اگر ان کے شناختی کارڈ میں ولدیت کے بجائے 'بنت پاکستان' لکھ دیا جائے تو مسائل حل ہوجائیں گے؟

اس کے جواب میں تطہیر کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ صرف 'بنت پاکستان' لکھوانے کا نہیں ہے بلکہ مجھ جیسے ان تمام بچوں کا ہے جن کے والد ان کے سرپرست نہیں، مجھے ایسے بہت سے پیغامات موصول ہو رہے ہیں جن میں لڑکے لڑکیوں کا کہنا ہے کہ ان  کا کیس بھی ایسا ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ میرا مطالبہ ہے کہ ہم جیسے لوگوں کے لیے بھی کوئی قانون بنایا جانا چاہیے۔

تطہیر نے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان سے امید ہے کہ وہ ہمارے لیے کچھ کریں گے۔ 'انہوں نے ہمارا کیس شریعت لاء میں بھیجا ہے اور جسٹس فدا محمد خان اس کیس کا فیصلہ کریں گے۔'

تطہیر کا کہنا ہے کہ یہ ایسا کیس نہیں ہے جو ہارا جائے بلکہ یہ تو مسئلہ ہے جسے حل ہونا ضروری ہے کیونکہ ان جیسے متعدد افراد موجود ہے جو والدین سے ستائے ہوئے ہیں۔

شو میں شریک ماہر قانون مصور گھانگرو نے بتایا کہ شناختی کارڈ کا فارمیٹ نادرا آرڈیننس 2002 کے تحت ہے جس کے رول نمبر 10 میں لکھا ہے کہ والد کا نام ہو گا لیکن یہ لازمی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'تطہیر کو پورا حق ہے کہ وہ عدالت سے مطالبہ کریں کہ میرے والد کا نام شناختی کارڈ سے نکالیں کیونکہ وہ انکار نہیں کر رہیں کہ وہ ان کے والد ہیں بلکہ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی میری کفالت نہیں کبھی میرے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کی۔

انہوں نے تطہیر کے مطالبے کو درست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ تطہیر کو اعتراض شناختی کارڈ کے فارمیٹ پر ہے کیونکہ ایسے بچے جن کے آگے پیچھے کوئی نہیں وہ کیسے 'والد' کا نام درج کریں؟

مزید خبریں :