لاہور نون کا، کراچی جنون کا

— فائل فوٹو

چودہ اکتوبر 2018 کو ہونے والے ضمنی الیکشن نے ثابت کر دیا کہ لاہور اب بھی نون لیگ کا گڑھ ہے ۔ اب چاہےمسلم لیگ ن اپوزیشن میں ہی کیوں نہ ہو لاہور اسے کو مایوس نہیں کرے گا۔

اسی طرح کراچی کبھی ایم کیو ایم کا گڑھ ہوا کرتا تھا لیکن 'جنون ' نے کراچی کے شہریوں کا مزاج ہی یکسر تبدیل کردیا ہے اور اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شہر اب 'جنون 'کا بن چکا ہے۔

14 اکتوبر کو قومی اسمبلی کے گیارہ حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے چار، نون لیگ نے چار، حکومت کی اتحادی ق لیگ نے دو اور بھارت کے سنگ پریوار کی طرز پر قائم مذہبی اتحادمتحدہ مجلس عمل یعنی ایم ایم اے نے ایک نشست حاصل کی ہے۔

اسی طرح 21 اکتوبر کو کراچی سے قومی اسمبلی کےحلقہ این اے 247 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 111 سے بھی تحریک انصاف نے ہی کامیابی سمیٹی۔

یوں اب پاکستان تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں اراکین کی تعداد 155 سے 160، قاف لیگ 5 سے سات، ایم ایم اے سولہ سے سترہ، نون لیگ 85 سے 89 ہو گئی ہے۔حکومتی اتحاد کے اراکین کی تعداد 176 سے 183 اور اپوزیشن اتحاد 159 سے 164 ہو جائے گی۔

صوبائی اسمبلیوں کی بات ہو توپنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی 4، نون لیگ 5 اور آزاد امیدواردو نشستیں حاصل کرسکی ۔کے پی اسمبلی میں پی ٹی آئی 5، اے این پی 4 اور نون لیگ نے ایک نشست حاصل کی۔ بلوچستان اسمبلی میں بی این پی اور آزاد امیدوار کو ایک ایک نشست حاصل ہوئی جبکہ حیرت انگیز طور پرصوبائی سطح پر پی پی پی نے اپنی گرفت بڑھاتے ہوئے سندھ اسمبلی میں دو نشستیں اور تحریک انصاف نے ایک مزید نشست حاصل کی۔

کراچی میں ایسا کیا ہوا جو ایم کیو ایم کا ووٹر باہر نکلنے کو تیار نہیں ہے۔ این اے 243عمران خان کی خالی کی گئی نشست تھی۔ اس پر عالمگیر خان کا کامیاب ہونا غیر معمولی بات ہے اور اس سے پی ٹی آئی کو کراچی میں اپنے قدم جمانے میں بھرپور مدد ملے گی۔ ضمنی انتخابات میں کراچی کی دونوں قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے کے بعد تو کہا جا سکتا ہے کراچی جنون کا شہر ہو چلا ہے۔

لاہور کی جانب نظراٹھائیں تو این اے 131 پر سعد رفیق ایک شیر کی مانند گرجتے نظر آئے۔ ویسے بھی وہ گراس روٹ پر رابطے رکھنے والے شخص ہیں مگر شاہد خاقان میں ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے تھے جو وہ اپنی نشست ہارنے کے بعد این اے 124 سے کامیاب ہوگئے ۔ سوچیں تو اس کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے وہ یہ کہ لاہور میں امیدوار کی شکل سے زیادہ شیر کے نشان کو ووٹ ملتا ہے۔

گجرات سے پرویز الہٰی کے بیٹے مونس الہی جبکہ تلہ گنگ سے چوہدری شجاعت ے بیٹے چوہدری سالک حسین کامیاب ہوگئے گویا اب سیاست میں ان کی نئی نسل بھی اپنے قدم جمارہی ہے۔ اسے ہم پنجاب میں تیسری قوت کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جس میں اگلے الیکشن میں اضافہ بھی ممکن ہے۔ پنڈی میں شیخ رشید کے بھتیجے تحریک انصاف کے امید وار شیخ راشد شفیق پی ٹی آئی کی مقامی قیادت کی مخالفت کے باوجود کامیاب نظر آئے۔ٹیکسلا سے این اے 63 پر غلام سرور خان کے بیٹے بیرسٹر منصور حیات اکہتر ہزار 782 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ بات اگلی نسل تک ہو تو بھی ٹھیک تھا مگر پرویز خٹک نے تو اپنے بھائی لیاقت اور بیٹے ابراہیم کو بھی ٹکٹ دلوایا جنہوں نے کامیابی بھی حاصل کی ۔ پی ٹی آئی نے اگرچہ جنرل الیکشن میں خیبرپختون خوا میں روایت کے برخلاف ایک مرتبہ پھر سے حکومت قائم کی لیکن اسے سوچنا پڑے گا کہ آخر خیبرپختونخوا میں اس کی ایسی کونسی غلطیاں ہیں جن کی بناء پر وہ ضمنی انتخابات میں اپنی جیتی گئی نشستیں بھی نہ بچا سکی اور اسے سوات اور پشاور جیسے اپنے مضبوط گڑھ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

لگتا ہے عمران خان کو اب فرنٹ لائن پر آکر خود باگ ڈور سنبھالنا ہوگی ورنہ ان کے وزیروں کو تو بظاہر بیوروکریسی جن بھول بھلیوں میں بھٹکا چکی ہے وہاں سے نکلنا ان کے بس کی بات نظر نہیں آتی۔

حکران جماعت کو ضمنی الیکشن کے بعد اندازہ ہو چلا ہے کہ لاہور نون لیگ کا تھا اور رہے گا۔اگر پی ٹی آئی نے توجہ نہ دی تو پنجاب اگلی مرتبہ شیر کا ہی ہو سکتا ہے۔ گویااب پی ٹی آئی کی حکومت کو عوام کو ڈیلیور کرنا ہی ہوگا ۔

معاشی مشکلات کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت کو بجلی ،گیس، پیٹرول کی قیمتیں اس سطح پر رکھنی پڑیں گی کہ اس کا بوجھ عوام پر نہ پڑے ۔

عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں ملک میں صحت کے مسائل کا ذکر کیا تھا ۔ اس لیے انہیں پولیو، تھلیسیمااوردیگر صحت کے دیگرمسائل پر توجہ دینا ہوگی تاکہ ہماری آنے والی نسل صحتمند ہو اور ملک کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکے۔

تحریک انصاف نے اپنی الیکشن مہم میں جنوبی پنجاب صوبے کا وعدہ بھی کیا تھا اور اسے اپنی حکومت کے ابتدائی 100 روزہ منصوبے کا بھی حصہ بنایا۔ 

میرے خیال میں انتظامی بنیادوں پر ملک میں نئے صوبے ضرور بننا چاہییں۔ رواں ہفتے تحریک صوبہ ہزارہ کے بانی بابا حیدرزمان بھی انتقال کر گئے۔ انہوں نے مرتے دم تک صوبہ ہزارہ کے لیے جدوجہد جاری رکھی ۔ میں امید کرتا ہوں کہ موجود حکومت جنوبی پنجاب صوبہ کے ساتھ ساتھ صوبہ ہزارہ کے لیے بھی راہ ہموار کرے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔