قومی کھیل کو تباہی سے کیسے بچائیں؟

فوٹو ایف آئی ایچ

ایک زمانہ تھا جب پاکستان ہاکی ٹیم کا شمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں کیا جاتا تھا۔ ہمارے یہاں ہاکی کے کھلاڑی نہیں بلکہ جادوگر پیدا ہوتے تھے۔ تماشائی ان کا کھیل دیکھ کرحیران رہ جاتے ، کھلاڑی برق رفتار ی سے آگے بھڑتے اور پلک جھپکتے میں گول، تماشائی آنکھیں مل رہے ہیں ، پھر تالیاں بجتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ گیند حریف ٹیم کی رکاوٹوں اور دفاعی حصار کو توڑتی ہوئی گول میں جا پڑی۔

لیکن آج یہ جو میں بیان کر رہا ہوں ، اس پر کون یقین کرے گا۔ اب تو سب خواب و خیال ہی لگتاہے، وہ لمحے کیا ہوئے، جو کبھی ہمارے لیے قابل فخر تھے، وہ کھلاڑی کیوں ٹیم میں شامل نہیں جنہیں نگاہیں تلاش کرتی ہیں۔

عالمی سطح پر یہ مہم شروع ہونی چاہیے کہ ہاکی کو نیچرل گراس پر ہی کھیلا جانا چاہیے جس طرح یہ کھیل ماضی میں ہوتا تھا۔

اب یہاں ایسا کچھ نہیں۔۔۔ کوئی لمحہ قابل ذکر نہیں ، کوئی موومنٹ باعث فخر نہیں۔ اب تو یہ حال ہے کہ چار مرتبہ کے عالمی چیمپئن کو بلجیئم جیسی ٹیم نے 5-صفر سے ہرا دیا۔ کیا ہو گیا پاکستان ٹیم کو ؟ کیا یہ وہی پاکستانی ٹیم ہے ؟ وہی کھلاڑی ہیں جو ہمارے لیے قابل فخر تھے؟ اب وہ دنیا کی چھوٹی چھوٹی ٹیموں سے پانچ ، پانچ گول سے ہاریں گے۔ جرمنی اور ہالینڈ کی ٹیموں کو شکست دینے والے اب ملائشیا سے بھی مقابلہ نہیں کر پاتے۔ ہم خود کو آج بھی ہاکی کا چیمپئن سمجھتے ہیں، ہمارا شاندار ماضی اس کا گواہ ہے ۔۔۔ جی ہاں درست ہے، لیکن ماضی کے کارنامے سنا کر ٹورنامنٹ نہیں جیتے جا سکتے۔

ہمیں اپنے کھلاڑیوں کو ڈھونڈنا ہو گا۔ سمیع اللہ، شہباز اور شہناز شیخ کو تلاش کرنا ہو گا۔ کیپٹن عبدالحمید حمیدی، انوار احمد خان، نصیر بندہ تو اب بھی ہوں گے لیکن ہمارے کرتا دھرتا ان کو دھونڈنا نہیں چاہتے۔ گول کرنے والے چاہییں کیونکہ گول روکنے والے تو بہت مل جاتے ، لیکن ان کو تلاش کرنے کی زحمت کون کرے۔ اس کے لیے بھی منصوبہ بنائیں۔ سب سے پہلے کوئی نور خان ڈھونڈیے۔ ہاکی فیڈریشن کو ایک اچھے منتظم کی ضرورت ہے۔ اسکول کی سطح پر ہاکی کو فروغ دے کر اچھے کھلاڑی تلاش کرنے ہوں گے۔جی ہاں ۔۔ دنیا کے بہترین ہاکی پلیئرز ہمارے ملک میں پیدا ہوتے ہیں۔ انگریزوں نے جب انڈین ٹیم بنائی تو وہ اس کی کارکردگی سے وہ بہت خوش تھے انہوں نے اولمپکس کے لیے "برٹش انڈیا" کے نام سے ٹیم رجسٹرڈ کرائی ۔ جس کے بعد اپنی "برطانوی "ٹیم واپس لے کر ان کی جگہ "برٹش انڈیا" کو کھلایا اور یہ ٹیم اپنے پہلےہی ٹورنامنٹ 1928 اولمپکس گیمز میں گولڈ میڈل حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی جس اس کے بعد برٹش انڈیا مسلسل چیمپین بنی رہی۔

فوٹو ایف آئی ایچ

اس لیے کہ ہمارے اس خطے میں ہاکی کے نیچرل پلیئر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے جسم کی لچک، پھرتی اور گیند پر کنٹرول رکھنے کی صلاحیت دنیا کے دوسرے ملکوں کے کھلاڑیوں سے زیادہ بہتر ہوتی ہے۔

افسوس یہ ہے کہ ہمارے یہاں فیڈریشن نئے اسٹارز نہیں بلکہ زیادہ فنڈز کی متلاشی دکھائی دیتی ہے۔ زیادہ فنڈز سے سہولتیں مل سکتی ہیں لیکن اچھے کھلاڑی ڈھونڈنے لے لیے تو ایک پروگرام بنانا پڑتا ہے۔ 

ابتدا ء میں انڈین ٹیم عالمی چیمپیئن بنی پھر پاکستان بن گیا تو پاکستانی کھلاڑیوں نے بھارتی برتری ختم کر دی۔ یورپین نے جب یہ دیکھا کہ ان کو ہرانا مشکل ہے تو انہوں نے اس کھیل کی بنیاد ہی تبدیل کر دی۔ انہوں نے نیچرل گراسی گراونڈ کے بجائے آسٹروٹرف پر ہاکی کھیلنا شروع کر دیا۔ حیرت ہے کہ دنیا کے کسی کھیل میں اتنی بڑ ی اور بنیادی تبدیلی نہیں کی گئی کہ کھیل کا میدان ہی بدل دیا جائے۔ 

کرکٹ جب پاکستان میں میٹنگ (Matting) وکٹ پر کھیلی جاتی تھی پوری دنیا میں اس کی مخالفت کی گئی۔ پاکستان کو پہلی ٹیسٹ سیریز میں میٹنگ وکٹ کے بجائے ٹرف وکٹ پر کھیلنا پڑا۔ صرف ایک میچ میٹنگ وکٹ پر کھیلا گیا، اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ کرکٹ نیچرل گراسی گراونڈ یا صاف ہموار میدان میں کھیلی جاتی ہے، مصنوعی وکٹ پر نہیں ہو سکتی۔ لیکن ہاکی کو مصنوعی گراونڈ پر کھیلنے پر کسی کو کوئی اعتراض کیوں نہیں ہوا؟ 

ہاکی ہمیشہ قدرتی گھاس یا کسی صاف اور ہموار میدان میں کھیلی جاتی تھی، اس وقت ایشین ٹیمیں ہاکی میں چھائی ہوئی تھیں۔ یورپی ٹیمیں ان کے مقابلے ناکام رہتی تھیں، اس لیے انہوں نے بہت چالاکی کے ساتھ آسٹرو ٹرف کا استعمال شروع کر دیا اس طرح آہستہ آہستہ ایشین ٹیموں کی برتری ختم ہو گئی۔ یہاں یورپی ماہرین نے "ٹریڈیشن" پر زور نہیں دیا۔ عالمی ہاکی فیڈریشن نے بھی نہیں کہا کہ ہاکی ہمیشہ گراسی گراونڈ پر ہوتی رہی ہے، مصنوعی ٹرف پر نہیں کھیلی جاتی تھی۔

یہ ایشین کھلاڑیوں کے خلاف سازش تھی کیوں کہ یورپی ماہرین کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ایشین کھلاڑیوں کا اتنا اسٹمنا نہیں ہوتا کہ وہ زیادہ دیر تک تیز رفتاری سے دوڑ سکیں۔ اس لیے ایشیائی ٹیمیں آسٹروٹرف پر یورپی کھلاڑیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں ۔ اس سازش کا نتیجہ وہی ہوا جو یورپی چاہتے تھے، جب سے آسٹرٹرف کا دور آیا ایشیائی ٹیمیں عالمی چیمپین شپ کی دوڑ سے باہر ہو گئیں۔ لیکن حیرت اس پر ہے کہ ایشیائی ٹیموں نے اس پر احتجاج بھی نہیں کیا۔شارٹ پاسز انتہائی لانگ پاسز بنا دیے گئے ، ڈینجر پلے کو ٹیکنیک کا نام دے کر کھیل کا حصہ بنا دیا گیا اور ایشیائی ٹیم کرتا دھرتا خاموشی سے دیکھتے رہے۔

عالمی سطح پر یہ مہم شروع ہونی چاہیے کہ ہاکی کو نیچرل گراس پر ہی کھیلا جانا چاہیے جس طرح یہ کھیل ماضی میں ہوتا تھا۔ کیوں کہ آسٹرٹرف کا استعمال صرف یورپی ٹیموں کو جتانے کے لیے شروع ہوا جس کی وجہ ایشیائی کھلاڑی اچھے اسٹمنا والے نہیں ہوتے۔

فوٹو ایف آئی ایچ

ہاکی فیڈریشن کا سربراہ کوئی کھلاڑی نہیں بلکہ پروفیشنل ایڈمنسٹریٹر ہونا چاہیے جو ہاکی کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے فیصلے کرے۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہر کھیل کے لیے اس کھیل کے سابق کھلاڑی کو فیڈریشن کا سربراہ ہونا چاہیے، لیکن عملا ًیہ تجربہ درست ثابت نہیں ہوا۔ نور خان کی مثال سب کے سامنے ہے جو ہاکی اوراسکواش کے کھلاڑی نہیں تھے مگر ایک نہایت قابل منتظم اور دلیری سے فیصلے کرنے والے سربراہ تھے۔ نور خان کے دور میں پاکستان نےاولمپک گیمز سمیت ہاکی میں دنیا کے تمام بڑے میڈلز اپنے نام کیے ۔ خاص طور پر انہوں نے جس طرح اولمپک گیمز میں شرکت کے لیے ٹیم تیار کی اس کے بعد اس طرح کوئی نہیں کر سکا۔

یہ پاکستان ہی ہے جہاں ہاکی کے پیدائشی اسٹار کھلاڑی ہوتے ہیں صرف ان کو تلاش کرکے" پتھر کو تراش کر ہیرا بنانے " کی ضرورت ہے۔

ہمارے یہاں سابق کھلاڑی کو فیڈریشن کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے جو ممکن ہے کھیل کے لیے تو بہتر فیصلے کر سکتا ہو مگر انتظامی امور میں ناکام رہتا ہے۔اچھے کھلاڑی کیسے تلاش کیے جائیں اور وہ کیسے سامنے آئیں گے یہ وہ نہیں سوچتا۔ سابق کھلاڑی صرف یہ جانتے ہیں کہ یہ فل بیک دوسرے کھلاڑیوں کے مقابلے میں اچھا ہے وہ فارورڈ بہتر ہے، گول کیپنگ اس کی اچھی ہے۔ ایک قابل اور باصلاحیت منتظم کی کمی کی وجہ سے ہمارے یہاں ٹیلنٹ تلاش کرنے میں بری طرح ناکامی ہوتی ہے ۔ عالمی مقابلوں کے لیے ٹیم تیار کرنے میں "اندھو ں میں کانا راجا " تلاش کرنے کی یہ تھیوری کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔

عالمی مقابلوں کے لیے ٹیم کی تیاری میں بہتر ٹیلنٹ تلاش کرنا پہلا مرحلہ ہے۔ اس کے لیے منتظم کو نیچرل کھلاڑی ڈھونڈنے چاہیے نا کہ جو مہیا کر دیے جائیں ان میں سے منتخب کر کے ٹیم بنا دے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ کھلاڑی دنیا کی کسی بھی ٹیم کا جم کر مقابلہ نہیں کر سکیں گے ۔ ہاکی ٹیم منیجمنٹ کو مستقبل کے اصلاح الدین، سمیع اللہ، صفدر عباس ، حسن سردار ، شہناز شیخ اور شہباز وغیرہ کی تلاش ہونی چاہیےتب کہیں " گولڈ" ملتا ہے۔

یہ پاکستان ہی ہے جہاں ہاکی کے پیدائشی اسٹار کھلاڑی ہوتے ہیں صرف ان کو تلاش کرکے" پتھر کو تراش کر ہیرا بنانے " کی ضرورت ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے یہاں فیڈریشن نئے اسٹارز نہیں بلکہ زیادہ فنڈز کی متلاشی دکھائی دیتی ہے۔ زیادہ فنڈز سے سہولتیں مل سکتی ہیں لیکن اچھے کھلاڑی ڈھونڈنے لے لیے تو ایک پروگرام بنانا پڑتا ہے۔ غالباً سات آٹھ سال پہلے کی بات ہے، آصف باجوہ سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ فیڈریشن کو چاہیے کہ وہ ملک کے بڑے شہروں کے چند اسکولوں میں فیڈریشن کی طرف سے ہاکی ٹیم بنائےوہاں ایک ایک کوچ بھی مہیا کیا جائے تو ہمیں بہترین کھلاڑی ملنے لگیں گے۔ 

ہاکی کے کھلاڑی پاکستان کے علاقوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جنم لیتے ہیں صرف ان کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اسکولوں میں ٹیموں کی تشکیل سے کھلاڑی ملنے لگیں گے۔ برصغیر کی ہاکی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ زیادہ تر کھلاڑی اسی خطے سے تعلق رکھتے تھے۔ اگر بھوپال میں ہاکی کے کھلاڑی پیدا ہوئے تو نسلی طور پر وہ اسی خطے کے تھے۔ 

بھارتی ہاکی کا ہیرو دھیان چند بھی ایبٹ آباد کا رہنے والا تھا۔ ہاکی کے جادوگر ہمارے یہاں ہیں، ان کو تلاش کر لیں تو پھر ہم دنیا کی کسی بھی ٹیم کو ہرا سکتے ہیں اور ہمارا قومی کھیل ایک بار پھر مقبول ترین کھیل بن جائے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسکول کی سطح پر اس کھیل کو شروع کریں۔ ہر شہر کے ہائی اسکولوں اور سینئر گریڈ والے اسکولوں میں ہاکی کی ٹیمیں بنائیں اور اس میں مستقبل کے سمیع اللہ، شہناز شیخ، شہباز، اصلاح، انوار احمد خان اور بریگیڈئر حمیدی تلاش کریں۔ بس یہی وقت کی ضرورت ہے۔



سید محمد صوفی جیو نیوزسے وابستہ ہیں اسپورٹس ایڈیٹر ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔