نمک کے زائد استعمال سے برطانیہ میں سالانہ 4 ہزار اموات

نمک کی زائد مقدار بلند فشار خون کی وجہ بنتا ہے جس سے دل کے عارضے لاحق ہو سکتے ہیں: طبی ماہرین۔ فوٹو: فائل

ماہرین کے مطابق تقریباً 4000 برطانوی ہر سال طبعی موت مرنے کی بجائے دل کے عارضے میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

برطانیہ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اِن اموات کی وجہ کھانے پینے کی اشیاء میں نمک کی زائد مقدار بتائی جا رہی ہے۔

ایکشن آن سالٹ نامی مہم کے گروپ چیئرمین پروفیسر گراہم میک گریگر جو لندن میں کوئن میری اسپتال میں کارڈیو ویسکیولر میڈیسن کے پروفیسر بھی ہیں کے مطابق برطانیہ 2005 سے 2010 کے درمیان نمک کے استعمال کی کمی میں کامیاب رہا تھا۔ یہ کام برطانیہ میں کیا گیا تھا اور تمام دنیا میں اس کی نقل کی گئ تھی لیکن اب اس اقدام کو  ایک بار پھر سے تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔

برطانیہ کے پبلک ہیلتھ ڈپارٹمنٹ پر  تنقید کرتے ہوئے پروفیسر گراہم میک گریگر نے کہا کہ گزشتہ دو برسوں میں اس شعبے نے کچھ نہیں کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ طبعی موت سے پہلے مر رہے ہیں۔

برطانوی حکومت کی جانب سے کھانوں میں نمک کی مقدار کی حد 2014 میں طے کی گئی تھی۔

پروفیسر گراہم میک گریگر نے بتایا کہ تمام کمپنیوں کو پہلے سے تیار شدہ کھانوں میں  2017 تک  100 گرام ڈبے میں بند سبزیوں میں 13.0 اور کری پیسٹ میں 3.75 گرام نمک محدود کرنے کا کہا گیا تھا۔

صبح ناشتے کی میز پر کھائے جانے والی اشیاء جیسے دلیے، پاستا اور بینز وغیرہ میں نمک کی حد کنٹرول کر لی گئی ہے لیکن مارکیٹ میں تیار شدہ کھانوں جیسے سوپ، بسکٹس، چاول اور دوسرے کھانے پینے کی اشیاء میں نمک کی حد کو طے شدہ حد کے مطابق رکھنے کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

یہ تحقیق سامنے آنے کے بعد سے نمک میں کمی کا پروگرام برطانیہ کے لوگوں میں نمک کے استعمال میں 11 فیصد کو 8 گرام روزانہ تک لانے کا سبب بنا۔

طبی ماہرین کی جانب سے روزانہ 6 گرام تک نمک استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق  اگر اس بات پر عمل درآمد مستقل بنیادوں پر ہوتا تو ہزاروں کی تعداد میں ہونے والی اموات سے بچنے میں مدد مل سکتی تھی۔

برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کی ماہر غذایئت وکٹوریہ ٹیلر نے کہا کہ نمک کی زائد مقدار بلند فشار خون کی وجہ بنتا ہے جس سے دل کے عارضے لاحق ہو سکتے ہیں۔

پہلے سے تیار شدہ کھانوں میں موجود نمک، جسم میں نمک کی زیادتی کا سبب بنتا ہے اور اس کمی میں ڈبہ بند کھانا تیار کرنے والی صنعتیں مدد کر سکتی ہیں۔

ہیلتھ اینڈ سوشیو کیئر کے اپنے اعداد و شمار بھی اس بیان کی تائید کرتے ہیں۔

پروفیسر گراہم میک کے مطابق آزادانہ طور پر کام کرنے اور مناسب طور پر مالی معاونت حاصل ہونے والا ادارہ نمک میں کمی کے پروگرام پر صحیح طرح کام کر سکتا ہے اور 2021 تک کے نئے اہداف کو طے کرنے اور حاصل کرنے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔

مزید خبریں :